وہاں بہت رش تھا ۔ دفتر میں افسران بھی موجود تھے اور سیکورٹی گارڈ بھی تھے ۔میں بھی اپنی باری پر آگے بڑھا اور پیپر پر دستخط کرنا چاہا ۔جیب میں پین موجود نہیں تھا۔اس موقع پر افسوس ہوا کہ ایک میری ہی جیب میں پین تک کیوں نہیں ۔کیونکہ ہمارا کام تو کاغذ قلم سے ہے ۔مگر بعد میں یاد آیا کہ اب ہمارا زیادہ تر تعلق نہ کاغذ سے رہا اور نہ ہی قلم سے۔اب تو پین کی جگہ کمپیوٹر کی بورڈ نے لی ہے اور کاغذ کی جگہ کی بورڈ پر چمکتے رنگین شیشے نے قبضہ کر لی ہے ۔ اس لئے دل کو ڈھارس دی کہ اگر پروفیسر ہوں تو کیا ہوا اور پین نہیں کیا مسئلہ ہم تو زبانی کلامی باتوں کے ماتو اور رسیا ہو چکے ہیں۔لیکچر دیا اور جن طالب علموں کو اگر کوئی بات اچھی لگی تو وہ جانیں ان کا کام پین سے یا پنسل سے اپنی کاپی میں نوٹ کر لیں ۔لیکن جیب میں پین کا ہونا بہر حال ضروری ہے ۔ اس میں پڑھے لکھے بندے کے لئے کوئی معافی نہیں ہے۔کیونکہ یہ پڑھا لکھا معاشرہ ہے قدم قدم پر پین کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ ہم تو جیب میں بال پین گھماتے تھے مگر افسوس تیس دن تیس بال پین کا سٹاک ضروری تھا ۔پھر ہماری جیب میں پارکر پین بھی رہے ہیں اور شیفر والے فا¶نٹین پین بھی تھے ۔ مگر دوست یاروں کا کیا کریں کبھی تو کوئی کہتا دکھا یار پین ۔جیب سے نکال کر دیا تو انھو ںنے دیکھ کر کہا بس یہ میرا ہوا ۔ہم بھی آگے دوستوں یاروںپر جان چھڑکنے والے ہیں۔ہم کیوں بھلا اس موقع کو ہاتھ سے جانے دیں۔ ہم کہتے آپ سے اچھا تو نہیں ۔رہے آپ کے پاس ہماری یاد دلائے گا۔مگر جب وارداتیں بڑھنے لگیں ہم نے احتیاط کا دامن ہاتھ میں تھام لیا۔ دفتر میں سینئر ساتھی دستخط کرنے کو ہم سے پین لیتے تو واپس کرنا بھول جاتے اور دستخط ثبت کرنے کے بعد مزے سے جیب میں اٹکا کر نکل جاتے۔ ہم سوچتے چلو کل دفتر لوٹیں گے تو یاد آ جائے گا یا گھر ہی میں ممکن ہے ان کو یاد آگیا ہو۔مگر دوسرے دن جب وہ دفتر تشریف لے آتے تووہ ہمارا پین ان کی جیب میں ٹانکا ہوتا۔ مگر ہماری کیا مجال کہ ہم ان کو کہیں کہ ذرا اپنا پین تو دینا۔ کیونکہ ہم احتیاط کے طور پر پہلے ہی سے گھر سے ایک اور پین اٹھا لائے ہوتے۔پھر اگر کوئی دفتر میں مانگ لیتا تو ہم نے یہ حکمت عملی اختیار کی اگلے کے مانگ لینے پر پین تو دے دیتے مگر ڈھکن اپنے پاس رکھ لیتے تاکہ جب بغیر ڈھکن پین ان کو اپنے ہاتھ میں عجیب لگے تو وہ اس کے مالک کی تلاش میںآواز دیں کہ یہ کس کا پین ہے تو ہم آگے بڑھ کر لے لیتے۔مگر ایسا بھی نہ ہوا ۔ وہ پین کو استعمال کر کے وہاں میز پررکھ کر نکل جاتے۔مگر ہمارے بعض حد سے زیادہ پیارے شاگرد ایسے بھی ہیں کہ ہمارا پین لے کر استعمال کرنا بلکہ اس کو ہم سے تحفے میں لے لینا زیادہ اچھا لگتا ہے۔وٹس ایپ کی آن لائن کلاس کے شاگرد پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ہمیں تصویروں میں دیکھ کر کہتے سر جی آپ تقریب میں آئیں تو آپ کی جیب میں جو پین ہے وہ میں لوں گا۔ہم کہتے لے لینا یار ۔ہمارے لئے تو ہمارے بال پین کی حیثیت کوئی نہ تھی مگر ان کے لئے یہ بڑے کام کی چیز ہے ۔سو ہمیں کیا اعتراض کہ ان کو اگر اس پین سے روحانی طور پر کوئی فائدہ پہنچے ۔استاد اپنی ذات میں کچھ نہیں ہوتا ۔ مگر شاگردوں کو اپنے استاد کو کو کچھ نہ کچھ سمجھناہوتا ہے۔استاد سے بولو آپ بہت کچھ ہیں ۔وہ فرمائیں گے ارے ہم کیا ہیں کچھ نہیں ۔مگر سٹوڈنٹس کو اپنے استاد کو کچھ نہ کچھ سمجھنا ہوگا۔ کالج میں سیکنڈ ایئر میں پڑھتے پڑھتے اچانک میری والدہ کو سوجھی کہ وہ میرے سر پہ سہرا دیکھیں ۔سو انھوں نے اوائل عمری ہی میں ہمیں دولھا بنا کر لوگوں کے سامنے بٹھا دیا ہم صوفے پر بیٹھ کر پھر اٹھ کر لوگوں کے گلے ملتے اور پھر بیٹھتے ۔مگر اتنے تھک گئے کہ خود اپنے ولیمہ سے بیزار ہونے لگے۔ہمارے پروفیسر خالدصغیر ڈار صاحب ہمارے ولیمہ پر آئے تو انھوں نے ہمیں پین کا تحفہ دیا جو سالہا سال تک ہمارے پا س پڑا رہا ۔اس سے ہم نے کچھ لکھا تو نہیں مگر گھر میں برسوںپڑے پڑے جانے کہاں رکھ دیا کہ پھر ڈھونڈے بھی نہ ملا ۔وہاں رش میں دستخط کر نے کے لئے انتظامیہ نے پہلے سے پین رکھ دیا تھا ۔ مگر اس کے ساتھ ڈوری باندھ دی تھی ۔تاکہ دستخط کرنے یا فارم بھرنے والا شہری پین کو غلطی سے اپنا سمجھ کر ساتھ جیب میں ڈال کر نہ لے جائے۔