ماحولیاتی مسائلاور وزیراعظم کا موثر موقف 

مقام شکر ہے کہ ماحولیات کے مسئلے پر وزیراعظم پاکستان نے اگلے روز فرانس میںہونے والی عالمی کانفرنس میں بڑے موثر انداز میں پاکستان کے اس موقف کو پیش کیا کہ ترقی پزیر ممالک از خود موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی مسائل کا مقابلہ نہیں کرسکتے ‘ انہوں نے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی معاشی زبوں حالی کا جس موثر انداز میں خاکہ کھینچا اس سے ترقی یافتہ ممالک کو اس مسئلے کی نزاکت کا احساس ہواہے ‘وزیر اعظم صاحب نے بجا کہا کہ ترقی یافتہ ممالک آ گے بڑھ کر ترقی پذیر ممالک کے لئے وسائل فراہم کریں‘ سابق امریکی صدر بارک اوباما کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اگر اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہ ہوا تو بھارت ٹوٹ جائے گا اور یہ کہ وقت آ گیا ہے کہ بھارتی جمہوریت پر تشویش کا اظہار سفارتی سطح پر ہونا چاہئے اس میں کوئی شک نہیں کہ یوکرائن کی جنگ سے پاکستان کی معشیت پر بھی گہرا اثر پڑاہے اور اس جنگ سے پاکستان میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہواہے ‘بھارتی وزیرا عظم کے موجودہ دورہ امریکہ سے بھارت کے سیاسی مبصرین کے مطابق بھارت امریکہ تعاون کی اگر ایک طرف تشہیر ہوئی ہے تو ساتھ ہی ساتھ کئی تضادات کی پردہ پوشی بھی ہوئی ہے دونوں ممالک کے سربراہان یعنی صدر بائیڈن اور نریندرا مودی اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی پر سوالات کامناسب جواب نہ دے سکے ۔یہ امر دل شکن ہے کہ عالمی درجہ بندی میں 400 بہترین جامعات میں پاکستان سے ایک بھی نہیں آکسفورڈ یونیورسٹی پہلے ‘ہارورڈ دوسرے ‘کیمبرج تیسرے اسٹنڈفور چوتھے ‘میسا چوسٹس پانچویں ‘کیلی فورنیا چھٹے اور پریسٹن یونیورسٹی ساتویں نمبر پر قرار پائی گئی ہے‘ یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی نشست کے لئے ایک ابتدائی مگر اہم کامیابی حاصل کر لی ہے ‘اقوام متحدہ کے سب سے اہم ادارے سکیورٹی کونسل میں ایشیا اور پیسیفک Pacific خطے کے ممالک کے لئے مختص مخصوص نشست حاصل کرنے کے واسطے پاکستان نے کافی عرصے سے سفارت کاری شروع کر رکھی تھی اور خوشی کی بات یہ ہے کہ خطے کے کسی بھی ملک نے پاکستان کی یہ نشست حاصل کرنے کی کوشش کی مخالفت نہیں کی ‘پاکستان کے اس نشست کو جیتنے کے امکانات واضح ہیں اور امید ہے کہ یکم جنوری 2025ءسے دسمبر 2026 تک پاکستان یہ سیٹ حاصل کرنے کے بعد سلامتی کونسل کا رکن رہے گا، آسٹریلیا اور روس کے درمیان کشیدگی سر اٹھا رہی ہے اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے کئی طبقوں کے افراد پر آسٹریلیا اور روس میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے ‘یاد رہے کہ آسٹریلیا امریکی بلاک کا ایک سرگرم ملک ہے جو چین اور روس کی دشمنی میں پیش پیش ہے اور امریکہ کے ہر اول دستے میں شامل ہے۔