اقوام متحدہ نے ’سمندروں کے تحفظ‘ کے لئے عالمی معاہدہ منظور کیا ہے تاہم اِس منصوبے کو منظور کروانے میں بیس برس لگے ہیں۔ قومی دائرہ اختیار سے باہر حیاتیاتی تنوع سے متعلق مذکورہ معاہدہ اس وقت نافذ العمل ہوگا جب کم سے کم ساٹھ ممالک اِس پر دستخط کریں گے اور کسی ملک کے دائرہ¿ اختیار سے باہر واقع سمندروں کے تحفظ میں مدد بھی کریں گے۔ سمندری ماحولیاتی نظام دنیا کو صاف اور صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سمندر ’کاربن سنک‘ کے طور پر پہچانے جاتے ہیں جو فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ ماحول دشمن گیس ہے جس کی وجہ سے زمین کے درجہ¿ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے اور کاربن کا اخراج آب و ہوا کی تبدیلی کا موجب بھی ہے۔ سمندری تحفظ کا معاہدہ اقوام کے درمیان اتحاد کے احساس کو فروغ دینے کا موجب بھی ہوگا بالخصوص اُن ممالک کے درمیان کہ جنہیں اب یہ احساس ہوا ہے کہ آب و ہوا کی
تبدیلی کے خطرات کا مقابلہ مشترکہ اقدامات ہی کے ذریعے ممکن ہے اور کوئی بھی ملک تن تنہا موسمیاتی تبدیلیوں سے نہیں نمٹ سکتا۔ یہ جان کر تسلی ہوتی ہے کہ عالمی رہنما اب گہرے نیلے سمندروں کے تحفظ پر ماضی کی نسبت زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور اِس بات کی بھی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے کہ عالمی سمندر ’ڈمپنگ گراو¿نڈ‘ نہیں ہونے چاہیئں جہاں ممالک اپنا کوڑا کرکٹ پھینکیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق ہر سال سمندروں میں دو سے آٹھ ملین ٹن پلاسٹک سے بنی ہوئی اشیاءپھینک دی جاتی ہیں جبکہ اِس گندگی کا دس فیصد حصہ ایشیا سے آتا ہے۔ جن قارئین کو کراچی کے ساحل پر سیروسیاحت کا اتفاق ہوا ہے وہ جانتے ہیں کہ ساحل کس حد تک نظر انداز ہیں اور یہ کس قدر ہولناک تصویر پیش کر رہے ہیں۔ سمندر کا ساحل طبی فضلے اور ساحلوں کے ساتھ لگے ریستورانوں کے لئے کوڑا کرکٹ تلف کرنے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں جہاں دیکھ بھال کا فقدان ظاہر کرتا ہے کہ پالیسی سازوں کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ سمندروں کو پاک صاف رکھنا کتنا ضروری ہے اور یہ کہ سمندر میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ وہ فضا میں پھیلی زہریلی گیسوں کو صاف کرتے ہیں۔ دنیا بلیو کاربن منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہے جس میں سمندری اور ساحلی ماحولیاتی نظام کی حفاظت اور ترقی شامل ہے تاکہ اِن کے تحفظ کے ساتھ قدرتی ماحول کو بحال بھی کیا جا سکے۔ پاکستان کا شمار‘ بدقسمتی سے دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جو اپنے ہاں ماحول کے تحفظ سے جان بوجھ کر بے خبر
اور خود کو لاتعلق کئے ہوئے ہیں اور ا س سے معاشی نقصانات اُٹھا رہے ہیں۔ ملک کے کسی بھی شہر میں فیکٹریوں سے نکلنے والا آلودہ پانی اور فضلہ پانی کے ساتھ بہایا جا رہا ہے جس سے ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہی ہے۔ اس طرزعمل کی اصلاح ہونی چاہئے۔ سمندری یا غیرسمندری ہر شکل و صورت میں قدرت کے بنائے ہوئے ’ماحولیاتی نظام‘ کا تحفظ ہونا چاہئے جو لاپرواہی کی وجہ سے ہے اور اِسی طرزعمل کے پیش نظر اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو تحفظ ماحول کی کوششوں میں شریک کیا جاتا ہے۔ دریا ہوں یا نہریں اور سمندر‘ اِن میں کوڑا کرکٹ پھینکنا کسی بھی صورت درست نہیں بالخصوص جب ہم سمندر کی بات کرتے ہیں جو زمین کے دو تہائی حصے پر مشتمل ہے تو اِس سے مراد وہ جاندار بھی ہوتے ہیں جو زیرزمین رہتے ہیں۔ پاکستان اگر زیرآب حیات کو بچانے کی عالمی کوششوں کا حصہ بنے تو اِس سے آمدنی بھی حاصل ہو گی اور ماحولیاتی تحفظ آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے بھی ضروری ہے۔