بہ وقت ضرورت یا بلا ضرورت

وہ اپنے کمرے میں بیٹھا تھا اس کے چہار اطراف دیواریں تھیں وہ اندر مقیم ومحدود و محصور تھا‘پھر یقین سے کہ قید تھا کیونکہ یہ اینٹوںکی دیواریں نہ تھیں بلکہ کتابوں کی دیواریں تھیں اس کو بڑا شوق ہے کہ وہ دنیا کی ہر کتاب پڑھے اور نہ بھی مطالعہ کرے مگر کوئی بھی کتاب ہو خواہ جس موضوع پرہو جس سبجیکٹ کی‘ وہ اسے گھیرکر اپنے شیلف میں سجا دے وہ اپنی سی کوشش میںخاصا کامیاب تھا‘ہمہ وقت اپنی لائبریری میں گھسے رہنااس کا وتیرہ بن چکاتھاپھروہ اچھا بھی تو لگتا تھاکیونکہ تعلیم کے حوالے سے دوسری یونیورسٹیوںمیں اس کابہت نام تھا اس نے پلی پلی جوڑ کر روپلی بنائے اور کتابیں جہاں سے دستیاب ہوئیں وہاں سے خریدیں وہ اپنی گیدرنگ میں علم کی جانکاری کے حوالے سے بہت مشہور تھااس سے احباب کسی مسئلے پر دریافت کرتے تو وہ بلا تکان بولتا چلاجاتامگر جس معاملے میں اس کو شکوک و شبہات ہوتے اور درک حاصل نہ ہوتی تو وہ برملاکہہ دیتا کہ میں نے اس ٹاپک پر نہیںپڑھا ورنہ میں آپ کو جواب دیتا‘باقی حضرات خاموش رہ جاتے مگر زیادہ تر وہ بولتاتو سب منہ میںانگلیاں داب لیتے ‘کرائے کے مکان میںرہائش پذیرتھالیکن بعض اس کے ہمدرد اس کو بولتے کہ اگر جتنی کتابیں جمع کررکھی ہیںاتنی اینٹیںلے آتے تو آج تم اپنے ذاتی گھرکے مالک ہوتے‘ وہ اپنی جگہ درست فرماتے مگر اس کی سوچ اپنی جگہ ایک آئیڈیل سوچ تھی جس تک کس کا ذہن پہنچنے سے قاصر تھا ہرقسم کی کتاب اس کے پاس موجود تھی پھر کتابوں کاعلم تو ایک طرف مگر یہ بھی تو ایک جداعلم ہے کہ کون سے مسئلے کا حل کس کتاب میںہے اس سے اگر کوئی پوچھتا تو وہ کسی کتاب کی طرف اشارہ کرکے کہتاکہ وہ کتاب نکال لا¶ تو یہ کیا کم بات تھی‘ مگر دفتر میںاکثر دیکھنے میںآتا کہ جب بحث و تکرار کا موقع آتا تو جھگڑے کی شکل اختیار کر بیٹھتا اوراس موقع پراس کو اس میںعار نہ تھی کہ وہ اپنے مو¿قف کو منوانے کےلئے ساتھ پڑی ہوئی کرسی بھی اٹھاکر اگلے کے سر پردے مارتا‘ جہاںتک آدمیت کی بات ہے وہ تو ہوتی ہے یا نہیںہوتی یہ تو آتے آتے آتی ہے اس کو کیا معلوم کہ کتابوںسے ہٹ کر زندگی صرف ایک ہی کتاب ہے مگر وہ آدمی کو بہت کچھ سکھلا دیتی ہے ان تمام کتابوں کے مطالعہ سے زیادہ اچھا ہے کہ بندہ زندگی کو کتاب جان کر پڑھے او رخوب پڑھے مگر زندگی کو اگر نہ بھی پڑھے تو زندگی کی کتاب اپنے آپ کو خود پڑھواتی ہے اسے کیامعلوم یہ کتابیں راستے کاچراغ ہیں جو جاتے ہوئے روشنی دیتی ہیںمگر خود منزل نہیںہیں کیونکہ ہزاروں کتابیں اپنے پاس رکھ لیں اور بالفرض سب کو پڑھ بھی لیا مگر آدمیت جس کا نام ہے وہ اگر بندے کویاد نہ رہ سکی تو کتابوں کاکچھ فائدہ نہیں ہزاروں کتابیں ایک طرف اور ایک نیک انسان کی صحبت ایک طرف بندہ جو کچھ کسی کے قریب رہنے سے سیکھتا ہے وہ کتابوں سے حاصل نہیںہوتااخلاق دنیا میںسب سے زبردست چیز ہے اگر ہزاروں کتابیںہوں تو اس کا مقصد یہی ہے کہ ان سے اخلاق سیکھ سکیں اور پھراخلاق نہ سیکھا اورہزاروں کتابیں پھرول ڈالیںتو سمجھو کہ وقت کاضیاع ہوازندگی کو پڑھو اپنے ارد گرد دیکھا تو ہزاروں مسائل کلبلاتے ہوئے کیڑوں کی مانند موجود ہوئے اور سینکڑوں مسئلے رینگتے ہوئے سانپوں کی مانند کاٹنے لگےں تو معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنا ہی دراصل انسانیت کے تقاضوں پرپورااترنا ہے مگر ہم ایسانہیںکرتے کتاب سے دوستی ہر چند اچھی ہے مگر صرف کتاب سے دوستی رہے اور سوسائٹی سے دشمنی نبھائی جائے تو یہ کتاب دوستی کس کام کی اپنے ارد گرد کتابو ں کی دیواریں اٹھا دینے سے بندہ آدمی نہیںبن جاتا اس کے لئے بزرگوں کی صحبت اختیارکرنا اور اس سے حاصل شدہ اخلاقیات بہ وقتِ ضرورت یا بلا ضرورت استعمال کرنا ہی بندہ کامنصب ہے کرم کتابی بن جانا برا نہیں کتاب کا کیڑا بن جانا اچھی بات ہے لیکن اپنے پڑھے ہوئے اور سیکھے ہوئے پر عمل نہ ہو اس سے فائدہ حاصل کرنا بہت دشوارہو جاتاہے اقبال کاشعر ہے نا کہ ” خرد کے پاس خبر کے سواکچھ اور نہیں ۔ تیرا علاج نظر کے سواکچھ اور نہیں“ اس کے علاوہ اقبال کامشہور شعر اسی طرف عکاسی کرتاہے ” یہ فیضان نظر تھایا کے مکتب کی کرامت تھی ۔سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی“ مولانارومی پہلے کتابوں کے رسیاتھے مگر انہوں نے بعد میں اس بات کو دل میں راسخ کیا کہ کتاب کی اپنی دنیاہے اور پھر وہ محدود ہے اس لئے اگر کتاب پڑھ لی اور آدمیت سے دور رہے تو فائدہ کچھ نہیںہے ۔