تعلیمی ادارے : سہولیات کا فقدان

’ڈائریکٹوریٹ آف ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن خیبرپختونخوا‘ کی مرتب کردہ دستاویز کے مطابق ”صوبائی حکومت کی جانب سے سکولوں کے لئے دو ارب روپے سے زائد ترقیاتی رقم مختص کرنے کے باوجود گزشتہ دو برس کے دوران سرکاری سکولوں میں سہولیات کی فراہمی پر ’ایک پیسہ‘ بھی خرچ نہیں کیا گیا۔“ ذہن نشین رہے کہ سکولوں کے اساتذہ اور والدین پر مشتمل کمیٹیوں (پیرنٹ ٹیچر کونسلوں) کو اختیار حاصل ہے کہ وہ سکول کی ضروریات (ترقیاتی کاموں) سے متعلق فیصلہ کرتے ہیں جن میں چار دیواری کی تعمیر و مرمت‘ بجلی و پانی کی فراہمی‘ مرمت و توسیع سمیت بنیادی سہولیات کی فراہمی شامل ہوتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق مالی سال 2021-22ءاور مالی سال 2022-23ءکے لئے مجموعی طور پر صوبائی حکومت نے بجٹ میں 2 ارب روپے مختص کئے لیکن محکمہ¿ خزانہ کی جانب سے اِس مد میں فنڈز جاری نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے سکولوں میں فراہم کردہ سہولیات کی فراہمی یا اِن کے معیار میں بہتری نہیں لائی جا سکی۔ دستاویز کے مطابق صوبے میں خیبرپختونخوا میں قریب پینتیس ہزار ایلمنٹری و سیکنڈری سرکاری سکول ہیں جن میں سے 4 ہزار 528 سکولوں میں بجلی‘ 3 ہزار 289 میں پانی‘ 1 ہزار 648 میں بیت الخلا¿ نہیں ہیں جبکہ 1 ہزار 552 سکول ایسے بھی ہیں جن کی چاردیواریاں نہیں ہیں! اگر گزشتہ ’مالی سال‘ میں مختص کئے گئے ترقیاتی فنڈز کا بروقت اجرا¿ کیا جاتا تو بہت سا کام مکمل کیا جا چکا ہوتا مذکورہ عرصے میں بعض ایسی صورتیں بھی رہیں جن میں سرکاری سکولوں کے پاس مالی وسائل (فنڈز) تو موجود تھے لیکن اِنتظامی مسائل کی وجہ سے اِن کا فنڈز کا استعمال نہیں کیا جا سکا۔ ایسے سکول بھی ہیں جن کے کلاس رومز میں پنکھوں کی اشد ضرورت تھی لیکن مالی وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے پنکھے نصب نہیں کئے جا سکے۔ سکولوں میں ترقیاتی کاموں کی رفتار کس قدر سست ہے اِس بات کا اندازہ اِن اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ مالی سال 2018ءسے 2020ء کے دوران صرف 40 پنکھے تبدیل کئے گئے جبکہ سکولوں کی مزید ضرورت 30 پنکھوں کی تبدیلی ہے جس کے لئے درکار مالی وسائل دستیاب نہیں ہیں۔ جن کلاس رومز میں پنکھے موجود ہیں اُن میں سے اکثر درست کام نہیں کر رہے جو گرم و مرطوب موسم میں اساتذہ اور طلبہ کے لئے پریشانی کا باعث ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی کلاسوں میں فی کلاس ساٹھ سے ستر طلبہ ہوتے ہیں اور اگر پنکھے درست حالت میں نہ ہوں تو درس و تدریس کا عمل متاثر ہوتا ہے اور اساتذہ بھی تدریسی عمل پوری توجہ سے سرانجام نہیں دے سکتے۔ توجہ طلب ہے کہ جب پشاو شہر کی کچھ سرکاری سکولوں کی حالت یہ ہے کہ اُن میں بنیادی سہولیات نہیں ہیں تو صوبے کے دیگر اور بالخصوص دور دراز اضلاع کے سرکاری سکولوں میں بنیادی سہولیات کے معیار کا تصور قطعی مشکل نہیں ہے۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ صوبائی دارالحکومت (پشاور) کے کئی سرکاری تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے جس کی وجہ سے عملے اور طلبہ دونوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسری اہم بات سکولوں کو شمسی توانائی سے منور کرنے کی ہے کیونکہ دیہی و نیم شہری علاقوں میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ رہتی ہے جس کی وجہ سے سکول جانے والے بچوں اور ملازمین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ مذکورہ علاقوں میں اٹھارہ سے بیس گھنٹے جیسی طویل لوڈشیڈنگ رہتی ہے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سے تعلیمی اداروں کو استثنیٰ نہیں دیا گیا۔ محکمہ ابتدائی اور ثانوی تعلیم کی جانب سے فنانس ڈیپارٹمنٹ (محکمہ¿ خزانہ) سے گزشتہ دو برس کے دوران باضابطہ طور پر متعدد درخواستیں کی گئیں سکولوں کو سہولیات کی فراہمی کے لئے فنڈز کی فراہمی کی جائے لیکن شاید صوبے کے خراب معاشی حالات کی وجہ سے سکوت طاری ہے۔ کیا تعلیم ہماری ترجیح ہے؟ اِس سوال کی روشنی میں اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال بڑی حد تک واضح ہو جاتی ہے کہ تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ایک عرصے سے محسوس اور بیان تو کیا جا رہا ہے لیکن سہولیات کی خاطرخواہ فراہمی نہیں کی جا رہی۔