شہر پشاورکا رش

پشاور بدل رہاہے اور شہر کے سولہ دروازوں کو پیچھے چھوڑ کر شہری شہر سے باہر نکل رہے ہیں برسوں پہلے شہر کے اندرون کے کافی قافلے اپنے مکانات دو تین مرلہ کے بھی ہوں تو چھوڑ چھاڑ کر اتنی اچھی قیمتوں میں فروخت کردیئے ان کوشہر کے باہر دس مرلہ کا پلاٹ بھی مل گیا اور کچھ رقم بھی ہاتھ لگی جس سے انہوں نے اس خالی پلاٹ پردو تین چار کمروں پرمشتمل گھر بنا کر باقی کا لان بناکر چھوڑدیاشہر یونہی تو نہیں پھیلتے ۔اسی طرح گھروں میں بچوں کی شادیاں ہو جائیں تو گھرمیں افراد کی تعداد بڑھ جانے کے بعدیک جا بیٹھ کر اس بات پر غور شروع ہوجاتا ہے کہ آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے تو ان کو سوائے اس کے اورکچھ نہیں سوجھتا کہ تقسیم ہو جانا چاہئے سو زمینوں اور گھروں کی تلاش کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی گھر کی قیمت لگنا شروع ہو جاتی ہے مہنگے داموں گھر کی فروخت کر دیتے ہیں مگر خریدنے والا اس کو گھر کے طور پر نہیں خریدتا بلکہ وہ ان گھروں کی گلیوں کے باہر سجی ہوئی مارکیٹوں میں اپنی دکانوں کے گوداموں کو وسعت دیتا ہے کیونکہ گھر کو تو وہاں پھیلا کر نہیں لایا جا سکتا بلکہ اس گھرکو گودام کی شکل دے کر وہاں باہر مارکیٹ میں آراستہ دکان کا فالتو مال یہاںگودام میں شفٹ کر دیا جاتاہے پھر جو نیا مال آتاہے اس کو اس گودام میںپہنچادیتے ہیں ۔ چوک ناصر خان جس کا میں نے ابھی نام لیا ایک بہت بڑا علاقہ ہے جہاں ہمارے بچپن میں کوئی ایک بھی پاپڑوں وغیرہ کی دکانیں نہ تھیں اور نہ ہی ان اشیاءکو کوئی جانتا تک تھا یہ کُرکُرے وغیرہ تو آج کی پیداوار ہیں اس وقت تو یہاں آرا مشینیں تھیں جہاں صرف لکڑی کا کام ہی ہوتا تھابلکہ میرے دادا مرحوم کی بھی یہاں ایک منڈی ہوا کرتی تھی مگر وہ وقت اب نہیں رہا وہ سو سال پہلے کی بات ہے اب تویہاں کوئی لکڑی کی خرید و فروخت کا سامان نہیں آخر یہاں ہمارے ماموں مشتاق او رچچا نثارکی دکانیں کام کرتی رہیں مگر جب سے لوگوں کا ٹرینڈ بدلا تو سب کچھ آہستہ بھی نہیں ایک دم سے بدل گیا پہلے یہاں آرامشین سے نکلے ہوئے بُرادے کی خوشبو ہوا کرتی تھی اب تو یہاں ٹافیوں کی خوشبویات کا راج ہے اور رواج ہے قسما قسم ٹافیاں اور ٹاپاپس ہیں اور دکانیں لبا لب بھری ہیںجہاں سے چاہیں مال خرید لیں اور ڈا¶ن لوڈ کرکے اپنی گاڑی میں اپ لوڈ کر لیں اور شہرکے باہر اپنی دکان کی طرف گاڑی کے ٹائر موڑ دیں پورے شہر میں سے دکاندار یہاں آتے ہیں اور یہاںسے مال اٹھا کر اپنی دکانوں کو بھرنے کے لئے یہاں سے سامان گاڑیو ں میں لاد کر شہر کے باہر جا رہے ہوتے ہیں شہر کے باہر جنہوں نے گھر ل©ئے انہوں نے وہاں اپنی پرانی اور مشہور دکانوں کے بورڈ بھی لگا دیئے ہیں شہر سے باہر بھی دکانیں سج رہی رہیں آہستہ آہستہ جہاں یہ شہر کے پرانے باسی یہ شہر چھوڑ گئے وہاں وہ اپنا کاروبار بھی نئے گھروں کے آس پاس شفٹ کر رہے ہیں او ردکانیںسنبھال کر بیٹھ گئے ہیں شہر سے اچھے خاصے دور نئی نئی بستیوں اوررہائشی مکانات کے سلسلے ہیں جہاں یہ لوگ شفٹ ہو چکے ہیں یہ براتو نہیں شہر اسی طرح پھیلتے ہیںیہ بھلی بات ہے کہ اسی طرح اس شہرِ پشاورکا رش ختم ہوگا کیونکہ جس کو دیکھو ہر کوئی پشاور کے اندرون ہی اپنی دکان پھیلائے بیٹھا ہے کیونکہ یہ شہر ہر کسی کو فائدہ دے رہا ہے خواہ دکاندار ہے یا کوئی اور بیوپارہے دوست ہے یار رشتہ دار ہے سب کو اس شہر نے بہت کچھ دیا مگر چلتے چلتے کہہ دینے میں کیا حرج ہے کہ ہم نے خود اس شہر کوکیا دیا ہے ۔ہم میں سے اگر ہر کوئی پشاور کو اپنا شہر بلکہ اپنا گھر سمجھتے ہوئے اس کی خوبصورتی میں اپنا حصہ ڈالے تو یقینا مل جل کر یہ کام کیا جا سکتا ہے یعنی پشاور کو پھر سے پھولوں کا شہر بنایا جا سکتا ہے اگر ہر کوئی اپنے گھر کے سامنے موجود گلی کو ہی توجہ کا مرکز بنائے تو پشاور کی تمام گلیاں صفائی ستھرائی کی مثال بن سکتی ہے کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہر کوئی اس میں اپنا حصہ ڈالے اور پھر بھی یہ کام نہ ہو سکے۔