پشاور شہر کے گھروں کے تہہ خانے

گرمی کے موسم میں پشاور میں شدید ترین گرمی پڑتی ہے‘ لیکن میں اس زمانے کی بات کر رہی ہوں جبکہ پشاور میں گرمیوں کے مہینے ناقابل برداشت ہوتے تھے کئی کئی دن لو چلتی تھی جس سے پشاور کے شہریوں کے کئی ضروری کام رک جاتے تھے‘ شدید سردی اور شدید گرمی میرے شہر پشاور کا بہت بڑا خاصہ تھا‘ ان زمانوں میں جو گھر بھی بنتا تھا اس میں تہہ خانہ ہوتا تھا تاکہ گرمی کی شدت سے تہہ خانوں میں بیٹھ کر اور سو کر اپنے آپ کو اور اہل خانہ کو بچایا جا سکے پنکھوں اور ا ئرکنڈیشنر کے زمانے تو بہت بعد میں آئے‘یہی تہہ خانے شہریوں کو گرمی کی شدت سے بچاتے تھے‘ گزشتہ دنوں اندرون سرکی گیٹ کی ایک گلی میں بہت بڑے مکان کی کھدائی کے دوران دو تہہ خانوں کی موجودگی کا علم ہوا شہر کے پرانے مکین تو کب کے قبروں میں جا سوئے ہیں اور نئے مکین باپ دادا کے گھروں کو بیچ کر پوش ایریاز میں جابسے ہیں‘ اب شہروں میں نئے نئے لوگ آکر بودوباش اختیار کرچکے ہیں انہوں نے گھروں کی کھدائی کے دوران تہہ خانوں کی موجودگی کو ایک نئے گھر سے موسوم کرکے بڑا شور مچایا‘ سوشل میڈیا گھبرا کے شور شرابہ کرنے لگ گیا کہ گھر کے نیچے ایک نئے گھر کی دریافت ایک اچھنبا بن گیا‘آثار قدیمہ والوں نے فوراً ایکشن کرکے اس گھر کو محفوظ کرلیا گھر کے نیچے گھر نہیں تھا بلکہ وہ تہہ خانے تھے جو پشاور شہر کی ہر گلی ہر نکر کے گھر میں موجود ہوتے تھے‘ بڑے بڑے گھروں میں دو یا تین کمرے بھی تہہ خانوں کی صورت میں بنائے جاتے تھے‘ ان دنوں مردانہ/ زنانہ اور ستر پردے کا خیال بے انتہا موجود رہتا تھا اس لئے دو یا تین کمرے تہہ خانوں کی صورت میں بنائے جاتے تھے جب میں نے ہوش سنبھالا اپنے گھر میں تہہ خانہ کی موجودگی کو پایا‘ ہمارا تہہ خانہ کافی گہرائی میں تھا جب بچپن میں تہہ خانے  کی سیڑھیاں  اترتی تھی تو ان کو گننا میرا بہترین شوق ہوا کرتاتھا وہ ہمیشہ میری گنتی کے مطابق14ہوتی تھیں 14سیڑھیاں نیچے اتر کر ایک بہت بڑا کمرہ پکی اینٹوں سے بنا ہوا تھا جب بھی میں شدید ترین گرمی میں بھی تہہ خانے کے سیڑھیاں اترتی ہر سیڑھی پر مجھے ٹھنڈک کا احساس ہوتا یہاں تک کہ آخر میں بالکل سردی جیسا موسم آجاتا‘ مجھے جو بات سب سے زیادہ اچھی لگتی وہ بجلی کا بٹن تھا جو میں تہہ خانہ شروع ہوتے ہوئے آن کرتی تھی اور جب تہہ خانہ آجاتا تھا تو ایک اور دیوار پر لگے ہوئے بٹن سے بلب آف کردیتی اور اس بات پر حیران ہوتی رہتی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اوپر والا بٹن دبائے بغیر بلب بجھ گیا ہے‘ سادگی زیادہ تھی لیکن الیکٹریشن کی ذہانت بھی زیادہ تھی کہ ان زمانوں میں بھی بجلی کا کام کرنے والے کیسے اپنا کام صحیح نوعیت سے  جانتے تھے ہم سب بہن بھائی تہہ خانے میں سوتے تھے اور گرمی کی لمبی دوپہریں تہہ خانے میں ہی گزارتے تھے ہماری ماں ہمیشہ اوپر صحن کی چارپائی پر دوپہر میں سو جاتی تھی‘صحن کے اوپر لکڑی کا بنا ہوا منگ اتنا بڑا ہوتا تھا اور اس کے دو بڑے بڑے ایسے دروازے ہوتے تھے جو ایک بندہ نہیں بند کر سکتا تھا دو لوگ دونوں اطراف سے ان کو کھولتے اور بند کرتے تھے جب منگ بند ہو جاتاتھا تو صحن میں قدرتی طور پر اندھیرا چھا جاتا جو ٹھنڈک کا سماں پیدا کردیتا اور جب شام ہوتی دوپہر ڈھل جاتی تو دوبارہ دو لوگ اوپر کوٹھے پر جا کر  منگ کے لیٹے ہوئے بند دروازے کو لپیٹ کر کھول دیتے کیا مہارت تھی کیا عمارت کی بناوٹ کی تکنیک تھی کہ میں نے سالہا سال اس منگ کو کبھی خراب ہوتے ہوئے اس کی لکڑی کو گلتے ہوئے نہیں دیکھا‘ منگ کے اردگرد خوبصورت لکڑی  کاجالی دار کام کیا ہوا تھا‘ تہہ خانے میں ہمیشہ کھیل کی ضرورت پڑ جاتی تھی ان دنوں استعمال ہونے والے کمبل مختلف نوعیت کے ہوتے آج کی طرح نرم نہیں ہوتے تھے اگر کمبل یا موٹی چادر عدم دستیاب ہوتی تو لرزا شروع ہوجاتاتھا‘ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ جاتے تھے گرمی کے آغاز پر تہہ خانے کی صفائی بہت ضروری ہوتی‘ مجھے تو بہت ڈر لگتا تھا اس لئے کہ تہہ خانوں میں دو قسم کے کیڑے شدومد کے ساتھ رہائش پذیر رہتے تھے  یہ سفید رنگ کا ایک انچ پر مشتمل کیڑا ہوتا تھا بے ضرر سا‘ بس جہاں کھڑا ہے وہی کھڑا رہتا لیکن ان کی مسلسل موجودگی بہت خوفناک ہوتی تھی دوسری قسم کا کیڑا موٹا تگڑا کالا سیاہ ہوتاتھا اس کو پشاور کے لوگ ٹٹن(Titan) کہتے تھے یہ کبھی کاٹتا نہیں تھا بس اس کی رہائش تہہ خانہ تھی لیکن صفائی کے دوران ہم ان کو بھگا دیتے‘ تہہ خانے کی نکر پر ایک گہرا سا گڑھا ہوتا جس کو پشاوری زبان میں کھرا کہا جاتا‘ سارا گند گریل اس میں ڈالا جاتا اور پھر سمیٹ کر کوڑا دان میں ڈال دیا جاتا‘ تہہ خانے سے اوپر صحن روشن دانوں کے ذریعے نظر آتا‘ یعنی روشن اور ہوا دار تہہ خانے بنانے کا اہتمام ان دنوں کیا جاتاتھا کہ وینٹی لیشن بھرپور طریقے سے ہوتی رہے اپنا تہہ خانے میں سونا اور پھر سہ پہر کو واپس جاتے ہوئے آخری سیڑھیوں پر گرمی محسوس کرنا آج تک بھی یادوں میں محفوظ ہے‘کتنے خوبصورت گھر تھے اور کتنے مضبوط بھی کہ شاید مزید کئی سو سال تک بھی ان کی کنسٹرکشن خراب نہ ہوتی لیکن آنے والی نسلیں  ہیں کہ جو آباؤ اجداد کے گھروں کو اونے پونے بیچ کر خود تو اے سی اور پنکھوں والے ڈرائنگ رومز میں چلے گئے لیکن ان کی یادگاروں کو بے وقعت کرنے کے لئے غیروں کے حوالے کر دیا۔