ناقابل رہائش شہر

ترقیاتی امور میں برسہا برس کی دانستہ غفلت‘ اقتدار و اختیار کے لئے جاری سیاسی لڑائیوں اور شہری مسائل پر مجرمانہ خاموشی نے ملک کے سب سے بڑے اور تجارتی شہر (کراچی) کو دنیا کے آلودہ ترین (ناقابل رہائش شہر) میں تبدیل کر دیا ہے۔ روشنیوں کا شہر کہلانے والے کراچی کی وجہ تسمیہ یہاں کی رواں دواں زندگی تھی‘ جسے ماحولیاتی خطرات لاحق ہیں۔ اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ (ای آئی یو) کی جانب سے شائع کردہ ”گلوبل لائیو ایبلٹی انڈیکس 2023ء“ کے مطابق دنیا کے 169 شہروں میں کراچی 173ویں نمبر پر ہے۔ یہ درجہ بندی پانچ عوامل کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ جس میں استحکام‘ قابل اعتماد بنیادی ڈھانچہ‘ صحت کی خدمات‘ تعلیم و ثقافت اور تفریح۔ ای آئی یو کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کراچی نے صحت و تعلیم میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن بنیادی ڈھانچے اور استحکام کے لحاظ سے خاطرخواہ بہتری نہیں آئی ہے۔ تعجب خیز ہے کہ پاکستان کے واحد ’میٹروپولیٹن (بڑے شہر)‘ کے پاس حسب آبادی عوامی نقل و حمل کا نظام (پبلک ٹرانسپورٹ) نہیں ہے جو اِس کی کم درجہ بندی کا ایک جواز ہے۔ کراچی کی گرین لائن سال دوہزارسولہ میں نواز لیگ کی زیر قیادت وفاقی حکومت کی جانب سے شروع کی گئی تھی۔ جس پر برسوں سے جاری کام تاحال ختم نہیں ہوا۔ سندھ کی موجودہ حکومت پیپلز پارٹی کی ہے جس کے زیر قیادت ’پیپلز بس سروس‘ شروع کی گئی ہے لیکن ’ریڈ بسوں‘ کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا۔ اس کے علاؤہ شہر کی سڑکیں بھی خستہ حال ہیں۔رہائشی علاقوں سے متصل غیر لائسنس یافتہ اور غیر منظم فیکٹریاں قائم ہیں‘ جن کی وجہ سے اطلاعات ہیں کہ پراسرار اور جان لیوا بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ تعمیر کے دوران استعمال ہونے والے غیرمعیاری مواد کی وجہ سے کثیر منزلہ رہائشی عمارتوں کے منہدم ہونے کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ کراچی میں سٹریٹ کرائمز معمول کی بات ہیں۔ مسلح ڈاکو معمولی مزاحمت پر قتل کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ کراچی پر خوف اور بے یقینی کی فضا طاری ہے‘ چاہے وہ سکیورٹی کے بارے میں ہو یا بارش جیسے قدرتی مظاہر کی وجہ سے۔ گزشتہ برسوں کے دوران کراچی کے مسائل کو سیاسی جماعتوں نے پوائنٹ سکورنگ کے لئے ہائی جیک کیا ہے۔ شہر کے آخری میئر‘ جو سال دوہزاربیس میں ریٹائر ہوئے اکثر شکایت کرتے تھے کہ سرکاری مشینری کو حرکت میں لانے کے لئے ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ تین سال تک‘ جب کراچی میں زیادہ بارشیں ہوئیں اُس وقت شہر کا میئر نہیں تھا۔ کراچی پاکستان کا ’اقتصادی مرکز‘ ہے اور اس کی ترقی ملک کی خوشحالی کے لئے ضروری ہے۔ کراچی کو فعال و مستعد بلدیاتی نظام کی ضرورت ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر حکمرانی و خدمات کا ’ماسٹر پلان‘ بنائیں۔ عوامی سہولیات کی فراہمی میں زیادہ سرمایہ کاری سے کسی بھی شہر کی حالت بدلی جا سکتی ہے تاہم کراچی کی ضروریات کو تنگ نظر مفادات پر ترجیح دینا ہوگی‘بالخصوص کراچی کے فیصلہ سازوں کو اپنے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے اجتماعی ترقی و مفاد کے منصوبوں کو سرفہرست رکھنا ہوگا اور صرف یہی ایک طریقہ ہے جسے اختیار کر کے کراچی کی عالمی درجہ بندی بہتر بنائی جا سکتی ہے جو سیاحتی و غیرملکی سرمایہ کاری کے نکتہئ نظر سے بھی اہم ہے۔