اگر تواس ملک میں پارلیمانی نظام حکومت نے پنپنا ہے تو ملک میں موجودہ سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر انقلابی نوعیت کی اصلاحات کرنا ہوں گی اور یہ کوئی سہل کام نہیں ہے انگریزی زبان کا ایک محاورہ ہے charity begins st home یعنی خیرات گھر سے شروع ہوتی ہے ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام کے قیام کی رٹ لگانے والوں کو پہلے اپنے گریبان کے اندر جھانک کر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا انہوں نے اپنی اپنی سیاسی پارٹی کے اندر جمہوریت کی داغ بیل ڈال رکھی ہے کہ نہیں کیا وہ انٹرا پارٹی الیکشن کے نام سے اپنی پارٹی کے مختلف مناصب پر جن افراد کہ چنتی ہیں وہ فول پروف سسٹم کے تحت چنے جاتے ہیں یا نہیں‘کیا ان کے انتخاب میں پارٹی کے ہر فرد کو ووٹ دینے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے یا محض خانہ پری کی جاتی ہے اور پارٹی کی ہائی کمان کی طرف سے نامزد افراد کو چن لیا جاتا ہے اس ضمن میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ ایک ایسا میکنزم مرتب ہونا ضروری ہے کہ جس سے عام آ دمی کو پتہ چل سکے کہ سیاسی پارٹیوں کی فنڈنگ کاکیاطریقہ کار ہے کون کون سے افراد سیاسی پارٹیوں کے فنڈز میں پیسے جمع کرتے ہیں اور کتنی کتنی رقم وہ جمع کرتے ہیں‘تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اکثر و بیشتر سیاسی پارٹیوں کے قائدین اسمبلیوں اور سینیٹ کا الیکشن لڑنے کیلئے ان افراد کو پارٹی ٹکٹ جاری کرتے ہیں کہ جنہوں نے پارٹی فنڈز میں بھاری بھر کم رقم جمع کی ہوتی ہے اس قسم کے افراد اکثر مفاد پرست ہوتے ہیں اور وہ ایوان اقتدار میں گھسنے کیلئے اس طریقے سے سیاسی پارٹیوں کی بیساکھیوں کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کو اس بات کا علم ہوتاہے کہ اگر ایک مرتبہ وہ پارلیمان کا رکن بن گئے تو ان کے مالی اور سیاسی اثر و رسوخ کے حوالے سے وارے نیارے ہو جائیں گے پارٹی فنڈز کے سالانہ آ ڈٹ کیلئے الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک مستند اور جامع آڈٹ کا نظام وضع کرے ہر رکن اسمبلی کے ذاتی اثاثوں پر کڑی نظر رکھنے کی بھی اشد ضرورت ہے اس ملک کے عام آدمی کو پتہ ہونا چاہئے کہ جو فرد کسی بھی اسمبلی کا رکن رہاہے اس کے ذاتی اثاثوں کی مالیت اس وقت کتنی تھی کہ جب وہ رکن اسمبلی بنا تھا اور جس وقت اس کی بطور رکن اسمبلی معیاد ختم ہوئی تو اس وقت اس کے ذاتی اثاثوں کی مالیت کیا ہے؟ ہر سیاسی پارٹی کا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ اس کے اراکین اسمبلی قانون سازی کی طرف خصوصی توجہ دیں اور جن موجودہ قوانین کو بدلتے ہوئے زمینی حقائق کے مطابق اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے ان میں ضروری ترامیم کی جائیں اور اگر کسی نئی قانون سازی کی ضرورت ہے تو وہ فوراً سے پیشتر کی جائے‘ لوکل گورنمنٹ کو مضبوط کرنا وقت کا تقاضا ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ ہر سیاسی پارٹی اپنے ارکان قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلیوں کو واضع ہدایات جاری کرے کہ وہ میونسپل اداروں کے کاموں میں دخل اندازی نہ کریں اور ان کو اپنا کام کرنے دیں اور وہ اپنی تمام تر توجہ قانوں سازی پر مرکوز رکھیں کہ جو ان کا بنیادی کام ہے۔ان ابتدائی کلمات کے بعد چند دیگر اہم امور پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈال لی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں‘یوکرائن کی جنگ کو شروع ہوئے 16 ماہ بیت چکے ہیں‘پر آج کل روسی صدر کو جن مشکلات کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ ان سولہ ماہ میں کبھی نہیں کرناپڑا تھا‘ روس کی فوج کے اندر ان کے خلاف بغاوت نے سر اٹھایا ہوا ہے آئندہ چند گھنٹے روسی صدر کے سیاسی مستقبل کے واسطے بڑے اہم ہیں وہ باغیوں کاقلع قمع کرنے پر تلے ہوئے ہیں‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر امریکہ روس یوکرائن جنگ میں یوکرائن کی ہلہ شیری نہ کرتا تو نہ یہ جنگ اتنا طول پکڑتی اور نہ روس کی افواج میں پیوٹن کے خلاف کوئی جرنیل بغاوت کرتا‘اصل بات یہ ہے کہ امریکہ ان وسطی ایشیا کی ریاستوں کو دوبارہ روس کے ساتھ اختلاط کرنے نہیں دے رہا کہ جو کبھی سوویت یونین کی شکل میں ماسکو کی دسترس میں تھیں اور جن کو امریکن سی آئی اے نے ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت ماسکو سے جدا کیا تھا۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فوجداری اور ریونیو مقدمات
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ