پہلے دن کی چھری

بیس ہزار روپے۔جی ہاں آنے والی عید کے پہلے دن قصابوں نے ریٹ مقرر کر دیئے ہیں‘ ہاں اگر آپ خود گائے ذبح کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں تو ٹھیک ہے‘ پہلے دن کی چھری کا یہ خرچہ بچ جائے گا وگرنہ عام سی قربانی بھی آپ کو دو لاکھ تک پہنچائے گی‘ خدا کرے سفید پوش آدمی کا بھرم رہ جائے وہ رسوا نہ ہو کیونکہ جگ ہنسائی کا سارا سامان تیار ہے‘جیسے قصاب کے پاس حلال کرنے کو چھری چاقو ٹوکا وغیرہ تیار ہیں‘گرمی الگ ہے جس میں انسان تو کیا جانور تک جھلسے چلے جا رہے ہیں۔آپ خود اندازہ لگا ئیں کہ گرانی اس حد تک ہے کہ آٹھ سو روپے میں گائے کا گوشت عام مارکیٹ میں فروخت ہو رہاہے جبکہ اپنی پسند کا گوشت جو ہڈی کے بغیر ہو وہ بارہ سو کا مل جائے گا‘ ایسے میں کہ دنبہ کا گوشت پکا کر پچیس سو روپے میں دیتے ہیں تو وہ دنبہ جو کمزور سا جسے کوئی بد قسمت ہی خریدتا ہے اس سال اگر اس کو کوئی خریدے تو اسی ہزار میں حاصل کر پائے گا‘ اس کا مطلب وہ شخص اس برس خوش قسمت ہوگا۔ ہاں مرغیوں کی قربانی قابلِ قبول ہوتی تو مرغی بھی کم از کم ایک دانہ دس ہزار روپے میں ہوتا‘وہ دنبہ جو چالیس ہزار تک بہت تیر مار کر لیتے تھے اب تو کمان میں تیر جڑ کے نشانے پر مارنے کی صلاحیت ہو تب بھی لاکھوں میں ایک ہے‘لوگ خفا ہیں اداس ہیں‘جاتے ہیں قیمتیں پوچھ کر واپس آ جاتے ہیں‘کیا خریدیں کیا نہ خریدیں‘پھر تو ایسا ہو گا کہ اس سال پچاس فی صد تک لوگ قربانیاں کریں گے‘وہ بھی ایک قربانی میں کئی حصے ڈال کر کریں گے‘پہلے عید سے بیس دن قبل رونقیں شروع ہو جاتی تھیں مگر اب تو عید سر پہ ہے اور ویرانی کی دھوپ بھی سر پر ناچ رہی ہے‘خریداری نہیں ہے سڑکیں ویران ہیں۔ہا ں عید کو ایک دو دن رہ جائیں تو شاید کوئی رونق دیکھنے کو ملے۔چھوٹی سے چھوٹی گائے یا بچھڑا کہہ لیں ایک لاکھ بیس کا ہے۔ذرا بھرا ہوا جسم ہو تو دو لاکھ اور پھر زیادہ خوبصورت بھی ہو تو اڑھائی لاکھ کہیں نہیں گئے‘وہ جانور جن کو پاؤں میں جھنجھنا پہنا دیتے تھے اور چھن چھن کی آواز گلی محلوں میں پردہ ئ سماعت پر دستک دیتی تھی آج وہ آوازیں موقوف ہوئی جاتی ہیں‘مویشی منڈیوں کی ویرانی دیکھ کرکہنا پڑتا ہے کہ ابھی تو دن ہیں۔وہ رونقیں جو پہلے ہوا کرتی تھیں بحال ہو جائیں گی کیونکہ اب تو چند دن باقی ہیں‘بڑی عید جتنی قریب ہوتی جارہی ہے اتنا بازاروں میں مویشیوں اور خریداروں کے سائے لہرانے لگے ہیں مگر پچھلے سال تو ایسا نہیں تھا پھر اس سے مزید پیچھے جائیں تو ایسی ویرانی نہ تھی کہ دشت ہی یاد آنے لگے۔جیسے شہر نہ ہو مویشی نہ ہو تو دشت و صحرا ہوں۔ مگر جنگل کا اس لئے نہیں کہا کہ وہاں کی اپنی رونق ہوتی ہے۔وہاں تو گائے بیل دنبے بکرے وافر ملتے ہیں مگر جنگل میں اپنی جان کو ہتھیلی پررکھ کرجائے کون۔ اب تو یہا ں ملتان سے جانور لے آتے ہیں اور منڈیوں میں کھڑے کر دیئے جاتے ہیں۔ اتنا برا حال ہے کہ مویشیوں کو بعض مقامات پر ان کے پاس دھوپ سے بچانے کا بندوبست بھی نہیں۔پشاور کی وہ رونقیں جو اندرون شہر تھیں اب کے نظر نہیں آ رہیں۔شاید ابھی تو دن ہیں۔وہ چھن چھن کر کے آتی ہوئی گائیں تنگ گلیوں میں سے گزرتی ہوئی اور ان پر پھولوں کے ہار ڈالے ہوئے گلے میں لٹکتی آواز دیتی گھنٹیاں پاؤں میں گھنگرو کہیں پازیب پہنی ہوئی او رگایوں کو مہندی لگی ہوئی اور ساتھ ایک گائے اور چھ نوجوان اور چھ عدد بچے دھوم دھڑکا مچائے ہو ئے چلے جاتے ہیں۔جن کے شور سے خواتین تو کیا ڈر کر ایک طرف ہو جائیں گی‘ خودمرد بھی ہاتھوں سے پکڑے ہوئے بچوں کو ایک طرف کر کے خود بھی اپنے آپ کو ان مچلتی اور دھم دھم کرتی گائے بھینسوں سے بچانے میں لگے رہتے تھے‘مویشی منڈیوں کو تو سرکاری اہلکاروں نے شہر سے باہر نکال دیا ہے مگر گائے بکریاں شہر کے اندر تک آ گئی ہیں۔ یہ شہر کے ہر چوک میں کھڑی ملیں گی کہیں سودا ہوگیا تو گھر کے قریب سے جانور کی رسی کو پکڑ کر گھرلے آئیں گے۔ مگر چوک خالی کوچہ خالی۔کچھ بھی تو نہیں۔مویشی منڈیوں تک میں مویشی لے کر پنجاب سے آئے اور اپنے شہر کے قرب و جوار سے لائی گئی گائیں وغیرہ لے کر تاجر ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں۔ ہم نے کون سا جانور خریدنا تھا ہاں مگر کالم تو لکھنا تھا سو معلومات کے لئے اپنی دو پایوں کی چاند گاڑی سے نیچے اترے اور مویشی منڈی میں جا گھسے۔اندرہمارے علاوہ اور کوئی گاہک موجود نہیں تھا۔ کس کے ماتھے پر لکھا ہوتا کہ یہ گاہک نہیں ہے۔ ان کو پتا چلے کہ ویسے دل خوش کرنے کو اور اپنے ذوقِ خریداری کو تسکین دینے آیا ہے تو ہمیں وہیں مین گیٹ سے لوٹا دیتے مگر ہم اندر جاتے گئے اور چارپائیوں پر بیٹھے ہوئے مویشیوں کے تاجر ہڑبڑا کر اٹھنے لگے۔میں چکر کھانے لگا کہ یہ کیاچکر ہے کیا یہ مجھے کالم نگار کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ میں نے آگے ہو کر ایک سے پوچھا خیر تو ہے یہ اتنی ہڑبونگ کیوں مچنے لگی ہے۔کہنا تھا یار کوئی گاہک نہیں ہے صبح سے یونہی بیٹھے ہیں۔ بلکہ وہ تو آواز بھی لگا رہے تھے کہ آئیے جانور سستے ملیں گے مگر پوچھو تو وہی اڑھائی لاکھ اوراس کے ارد گرد کی قیمتیں۔