موسم کی مہربانی

عید دو ہاتھ پر ہے یا پھر موسم کی شادابی کااثر ہے کہ شہر میں کچھ رونقیں بحال ہوئیں۔ گاہک انتظار میں تھے کہ تیز نرخ دھیمے پڑ جائیں تو باہر نکلیں۔ اس میں یقین سے موسم کی مہربانی کا دو چند اثر ہے کہ لوگ گھروں سے نکل آئے ۔جب پچھلے دنوں کراری گرمی نے پورے شہر کو ہائی جیک کر لیا تھا تو گاہک بھی دم سادھے گھروں کی چار دیواری میں محصور و محدود ہو گئے تھے۔پرسوں رات فکس بارہ چالیس پہ بادلوں کے بھرے ہوئے ماٹ الٹ گئے اور چھناکے سے ابرِ باراں ایسی برسی کہ دس منٹ میں ہر سُو جل تھل کر دیا۔دن ڈھلتے ہی ہوا¶ںمیں ٹھنڈک کا احساس ہوا ۔کیونکہ ایک دن پہلے سوات کے علاقوں میں بارشوں نے موسم خوشگوار بنایاتھا۔اندازہ تھا کہ یہ بادل یا تو وہاں سے ہوا¶ں کے دوش پر اڑتے ہوئے یہاں آئیں گے یا کہیںاور سے بادلوں کے قافلے ہمارے شہر کا رخ کریں گے۔کیا بات ہے فراز کی”تپتے صحرا¶ں پہ گرجا سرِ دریا برسا ۔تھی طلب کس کو مگر ابر کہاں جا برسا“ پھر انھی کا ایک ایک اور شعر ملاحظہ ہو ” صحرا تو بوند کو بھی ترستا دکھائی دے ۔بادل سمندروں پہ برستا دکھائی دے “۔خیر یہ تو قدرت کے اپنے انتظامات ہیں ۔فراز ہی کے بقول ” ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے ۔کس کو سیراب کرے وہ کسے پیاسا رکھے“۔چلتے چلتے اسی زمین میں اپنا ایک شعر داغ دیں اور اپنا شعر ہم نہیں لکھیں گے تو اور کون ہمارا تذکرہ کرے گا ۔ہم خود داد نہیںدیں گے تو ہمارے شعر کو اور کس نے داد سے نوازنا ہے ملاحظہ ہو ” اب یہی جی میں ہے یہ تشنہ لبی ختم نہ ہو ۔سب کو سیراب کرے وہ مجھے پیاسا رکھے “۔خیر اگلے مہینوں میںگرمی اور پیاس کے اور بہت حوالے آرہے ہیں۔مگر ہم نے بات کو موسم سے لیا اور جانے کہاں سے کہاں پہنچے ۔قلم کے گھوڑے کا کیا ۔پھر اس کی باگیں بھی نہ ہوں اور پا¶ں بھی رکاب میں نہ ہوں تو بقو ل ِ غالب خدا جانے یہ اسپِ تازہ کہاں جا کر رکے۔ ”رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے۔ نے ہاتھ باگ پر ہے نے پا ہے رکاب میں“۔خیر بارش کے بادلوں نے پانیوں کے ڈونگرے انڈیل دیئے۔ہم تو چند روز پہلے سوچ میں تھے کہ عید کے روز بھی فجری سمے اٹھ کر ٹھنڈے پہر میں فریج میں سے ٹھنڈا یخ گلاس پانی اپنے اندر انڈیلیں گے مگر اب کے لگتا ہے عید اچھی گزر جائے گی۔ کیونکہ موسمی پیش گوئیا ںہیں اور ہمارے لوگوں کے موبائل ہیں۔جانے موسمیاتی ادارے کو کس نے چغلی کھا دی کہ یہ کالم نگار کھیتی باڑی میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے۔کیونکہ ان کے ہاںسے موبائل پر کسان بھائیوں کے لئے موسم کی پیش گوئیاں پڑھنے کو ملتی ہیںتو اخبار اور ٹی وی میں سننے کو مل جاتی ہیں۔ان دنوں موسم کی مہربانیوں کا تذکرہ بہت ہے۔بلکہ رات کو آدھے پہر کے فوراً بعد جو بارش ہوئی اس نے تو وہ طوفان مچا دیا کہ کتنے ہی لوگ آسمانی بجلی کے کڑکڑاتے ہوئے کوڑے کی زد میں آئے اور جان ہی سے چلے گئے او رعلاوہ اس کے کتنے ہی علاقوں میں پانی کے مٹیالے ریلے چلے اور کہیں تھمنے کا نام ہی نہ لیا ۔رات کو بارہ بجے ہم نے بارش سے پہلے رنگ روڈ پر جانوروں کی فروخت کے مناظر میں کچھ والد حضرات کو دیکھا کہ چھوٹے بچوں کو ساتھ لئے چلے جا رہے ہیں ۔ہم نے سوچا اور اس نتیجے کے نکالنے میں دیر نہ لگائی کہ یہ جانور خریدنے جا رہے ہیں۔ مگر نہ بھی خریدا تو اتنا تو کر لیں گے کہ قیمتوں کا تعین کریں ۔جانور آج نہ لیا تو کل دوبارہ آ جائیں گے اور اس سے پہلے گھر میں ایمرجنس میٹنگ کے ذریعے قیمتوں کے طوفان کی زد میں کوئی نہ کوئی فیصلہ کر لیںگے۔پھر بچوں کو اس موقع پر گائے بکروں کی سیر کرانابھی تو برا نہیں۔ مویشی اگر نہ بھی خریدیں تو بچوں کو سیر کروانا اور اچھے موسم میں آ¶ٹنگ کا ڈول ڈالنا کیا برا ہے۔اب تو چند روز سے شام کو سورج کے ڈھلتے ہی سڑکوں پر عوام الناس کی نفری زیادہ ہو جاتی ہے کہ اگر اچھی قیمت پر کہیں کوئی مویشی ہاتھ لگ جائے تو گھر کی طرف ہشکانا شروع کر دیں۔ دو ایک بچوں کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے گائے بیل اگر چلنے میں سستی کرے تو آ پ نے اس کی دم کو ہلانا جلانا ہے تاکہ گھرجلدی پہنچ جائیں۔یوں چھوٹے بڑے سب ہی قربانی کے جانور ک خاطر مدارات میں مصروف ہو جاتے ہیں اور ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس معاملے میں دوسروں پر سبقت لے جائے اور دیکھا جائے تو یہ ایک اچھی روایت ہے۔