غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ 

اسلام آباد میں دو ماہ سے عجیب قسم کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے وقفے وقفے سے بجلی چلی جاتی ہے۔ بجلی کی یہ آنکھ مچولی وفاقی دارالحکومت کے بجلی کے صارفین کیلے سوہان روح سے کم نہیںہے۔ بہتر ہو گا اگر IESCO کے کرتا دھرتا میڈیا کے ذریعے لوڈ شیڈنگ کے اوقات کا پیشگی اعلان کر دیا کریں اور یا پھر اپنے کمپلینٹ کے فون نمبر کو چوبیس گھنٹے فعال اور متحرک رکھیں تاکہ بجلی صارفین کو کم از کم یہ تو پتہ چلتا رہے کہ آ خر بجلی بند ہو جانے کی وجہ کیا ہے۔ جب وفاقی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ چھوٹے شہروں کا اس سلسلے میں کیا حال ہوگا۔دیکھا جائے تو بجلی کی کمی کے ملکی معیشت پر بھی بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس لئے تو ملک کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے تیزی سے بروقت اقدامات اٹھانے کا وقت آگیا ہے۔ موجودہ حکومت اس ضمن میں اہم منصوبوں پر عمل پیرا ہے تاہم اس میں تیزی لانے کی اشد ضرورت ہے۔ 
دیگر ممالک میں اس بات کا اہتمام خاص طور پر کیا جاتا ہے کہ بجلی کا نظام کسی صورت بھی کمزور نہ پڑے اور ملک اندھیروں میں نہ ڈوبے عوام کا بھی فرض بنتا ہے کہ بھلے وہ کسی بھی پیشے سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں اپنے معمولات زندگی یوں ترتیب دیں کہ صبح سویرے سورج کی پہلی کرن کے ساتھ وہ اپنا اپنا کام شروع کریں اور شام پڑتے ہی اپنی اپنی مصروفیات بند کر دیں تاکہ بجلی کے استعمال میں حتی الوسع کمی کی جاسکے۔ ویسے بھی صبح صادق اٹھنا اور رات کو جلد سونا انسانی صحت کے واسطے بہت ضروری ہے اب تو یہ معمول بن گیاہے کہ لوگ رات گئے تک جاگتے ہیں بڑے شہروں میں تو لوگ آ دھی رات کے بعد بھی جاگتے نظر آ تے ہیں اور اگلے روز دوپہر بارہ بجے سے پہلے آنکھ نہیں کھولتے اس طولانی جملہ معترضہ کے بعد حسب معمول تازہ ترین۔ قومی اور عالمی معاملات پر ایک تنقیدی نظر اگر ڈال لی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔سابق امریکی صدر بارک اوباما کے بھارت میں مودی سرکار کی اقلیت کش پالیسی کے خلاف حالیہ بیان پر بھارتی حکومت بھارتی میڈیا میں ان بیانات کی اشاعت کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے کہ جن سے اوباما کی کردار کشی ہوتی ہے۔ مودی سرکار کو اوباما کی یہ بات بری لگی ہے کہ اگر بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف جارحانہ کاروائیاں جاری رہیں تو بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتا ہے۔ لگ یہ رہا ہے کہ پیوٹن نے روسی افواج میں شکست و ریخت کے عمل کو اپنی حکمت عملی سے کافی حد تک روک کر امریکی سازش کو سر دست ناکام بنا 
دیاہے جس سے دنیا میں امن کے پرستاروں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔امریکہ ہاتھ دھو کر روس اور چین کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ ان ممالک میں ایسے اندرونی مسائل پیدا ہوں کہ وہ دنیا میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کی طرف توجہ ہی نہیں دے سکیں تاہم اس وقت روس اور چین دونوں یک جان دو قالب ہیں اور دونوں ممالک کی قیادت یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ اگر وہ مل کر چلیں تو امریکہ کی ایک بھی نہیں چلے گی اور اس کے ان دونوں ممالک کو کمزور کرنے کے منصوبے ناکامی سے دوچار ہوں گے۔ماضی میں بھی امریکہ نے روس میں کئی مرتبہ بغاوت کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے تاہم صدر پیوٹن کی عوام میں مقبولیت اس قدر ہے کہ امریکہ کی سازشیں کامیاب نہیں ہوئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر پیوٹن نے روس کو ایک بار پھر اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے میں دن رات محنت کی ہے اور اس وقت روس ایک بار پھر معاشی اور فوجی طاقت کے لحاظ سے عالمی طاقت بن چکی ہے ۔