اس وقت ہمارے علاقے میں قربانی کا جانور خریدنے کےلئے جو معیار مقرر ہوا تھا وہ حاجی صاحب کی گائے تھا‘ بہت پیسوں کی آتی تھی اور ہم بچے وغیرہ مل کر اس گائے کو چارہ ڈالتے اور پہروں دیکھتے رہتے ‘جب حاجی صاحب کی گائے آتی تو سرِ عام کھونٹی سے باندھ دی جاتی ۔یہ بھری پُری گائے اور چوڑا چکلا بدن جسم تنو مند خوبصورت اندام کہ اس کی قیمت دیکھو تو بھی ایک معیار اور اس کے گوشت کو دیکھو تو بھی منوں کے حساب سے گوشت کا ایک معیاری فیتہ ذہن کے پردوں پر منقش ہو جاتا۔ بھلا دس ہزار کی گائے کوئی خرید سکتا تھا۔ دیگر لوگ اگر خرید پاتے تو ہزار پندرہ سو دو ہزا کا دنبہ خرید لیتے ۔پھر وہ گائے نہ صرف ان کے گھربلکہ علاقے کے لوگوں کے لئے بھی ایک جانور کو پال کر اس کے ساتھ عادی ہو کر پھر اس کی قربانی کرنے کا ایک الگ معیار بناتی۔ یوں کہ خود کے گھر والے تو کیا غیر غماز اور دوسرے تعلق دار بھی اس گائے کو ذبح ہوتے دیکھتے تو آنکھوں میں آنسو لے آتے۔آج تو معیار یہ مقرر ہوا ہے کہ دو دن پہلے گائے لی اور ذبح کر دی۔جس سے حق ہمسایوں کو تو کیا گھر والوں ہی کو کچھ محبت نہ ہو سکی۔گلی میں دنبے بکرے اور دوسری گائیں بچھڑے اور بھینسیں وغیرہ بھی کھڑی ہوتیں ۔مگرجو رعب حاجی صاحب کی گائے کا ہوتا وہ تو کسی اور جانور کا نہ تھا۔پھر گائے کی قربانی کا وقت مقرر ہو جاتا ۔ حالانکہ حاجی صاحب کا گھر باہر دو تین گلیاں چھوڑکر ہوتا مگر یہ گائے ذبح ہونے کےلئے ان کے بھائی کے گھر میں لائی جاتی ‘جہاں نیچے گرا¶نڈ فلور میں صحن ہوتا اور صحن کے ارد گرد تین بڑے کمرے ہوتے ‘ایک میں زنانیاں سیر کرنے کےلئے موجود ہوتیں او ردوسرے میں گلی کے بچے وغیرہ کھڑے اس ذبح خانے کے مناظر دیکھتے ۔عورتیں جو محلے اور گلی کے باہر سے آئی ہوتیں کمرے کے بستے اٹھا کر اس کی درز میں سے سارا تماشا کرتیں ۔مگر ہم بچے اور ساتھ خواتین دونوں طرفین ایک خوف کی فضا ہوتی ۔گائے کو رسی ڈالتے وقت دل لرز جایا کرتے پھر جب اس کی رسی کھینچتے او رحالانکہ گائے کا بھاگنا تو ممکن نہ تھا مگر اس کشاکش میں گائے کا زور لگانا ہم سب کےلئے خوف او رڈر کا باعث ہوتا‘ہم جو کمرے کی سیڑھیوں میں بہادری کا مظاہرہ کر کے کھڑے ہوتے فوراً کمرے میں چڑھ جاتے اور کمرے کا دروازہ بند کردیتے ‘یہاں اس گھر میں فائدہ یہ تھا کہ تماش بین حضرات کےلئے نظارہ کرنے کے مختلف مقامات تھے‘ سب سے زیادہ محفوظ مقام اوپر والی منزل تھا جہاں لوہے کے منگ میں سے بھلا گائے اوپرکیسے آ سکتی‘ بعض خواتین اس منگ پر جھک کر یہ سارامنظر نامہ اپنی آنکھوں سے اطمینان کےساتھ دیکھ رہی ہوتیں۔مگر جب گائے کے گلے پر چھری پھر جاتی تو خاص طور پر دل گداختہ عورتیں رونے بغیر نہ رہ سکتیں‘ گائے کے گلے پر چھری پھیرتے وقت حاجی صاحب آگے بڑھتے اور چھری سے گائے کے گلے پر کٹ لگاتے اور فوراً محلے دار قصاب ان کے ہاتھ سے چھری لےکر اس عمل کو جاری رکھتا ۔آج تو گائے کی قیمت نہ پوچھو او ردنبے بکرے کے نرخ مت دریافت کرو ‘پھر اس وقت جگہ جگہ ہر گلی محلے میں گائے دنبے بکرے کٹ رہے ہوتے ‘گلیوں میں جگہ جگہ قربانی کی وجہ سے گلی کی نالیاں جانوروں کے خون سے رنگین ہوتیں۔ یہ شعر بھی سنتے جائیں اب ذہن میں آ گیا ہے تو اس کو جھٹکنا بھی اپنے اختیار میں نہیں ۔” تری نگاہ کے تصور میں ہم نے اے قاتل ۔لگا لگا کہ گلے سے چھری کو پیار کیا“۔پھر اس گائے میں گوشت بھی اتنا ہوتا تھا کہ پھوڑ بچھ جاتے او رٹوکے اور تبر تیار ہو جاتے اور درخت کی گھوڑی پر کلہاڑیوں کے وار اوراس کی آوازیں گلی کے تمام گھروں میں پہنچ جاتیں۔حاجی صاحب کیابیبا آدمی تھے۔ شریف النفس کم گو اور سخی سرور شخصیت کہ کسی کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے ۔علاقے میں عمارتی لکڑی کی دکان تھی بلکہ دکان کیا پوری منڈی تھی‘ درجنوں مزدور کام کرتے اور ان کے گھرسے دوپہر کا کھانا نیچے اترتا اور سب مزدور اکٹھے بیٹھ کر کھاتے۔ آج ان کا نعم البدل تو شاید ڈھونڈے سے مل جائے مگر ان جیسا تو ڈھونڈنے نکلو تو خود کھو جا¶۔جو ان سے ملتا اور ان کے پاس بیٹھتا تو ہم اس منظر کو دیکھ کر خوش ہوتے او ران کی شخصیت سے متاثر ہوتے ۔