دنیا کے غریب ترین اور کمزور ترین ممالک میں پائیدار ترقی کے لئے سرمایہ کاری کا فقدان ’اہم عالمی مسائل‘ میں سے ایک ہے‘ خاص طور پر غریب ممالک قرضوں کی وجہ سے معاشی بحران میں ہیں یا جلد بحران کا شکار ہونے والے ہیں۔ کورونا وبا‘ روس یوکرین جنگ اور آب و ہوا کی تبدیلی جیسی تین بڑے واقعات نے دنیا کی بہت سی ترقی پذیر معیشتوں کی ترقی روک رکھی ہے جبکہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ پائیدار ترقی میں سرمایہ کاری کی جائے اور اِس سرمایہ کاری میں ہر سال اضافہ ہونا چاہئے۔ اِس صورتحال میں سرمایہ دار ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دنیا کے ایک مشترک مستقبل کو بچانے کے لئے متحد ہوں لیکن امریکہ‘ یورپی یونین اور چین جیسی بڑی معاشی طاقتیں موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجوں پر بہت ہی کم توجہ دے رہی ہیں جبکہ اس کے مقابلے وہ تکنیکی مسابقت‘ ری ڈسٹائلائزیشن‘ ڈی کاربنائزیشن اور زیرو سم سٹریٹجک مینوورنگ پر زیادہ توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ اِن اصلاحاتی حکمت عملیوں سے ترقی یافتہ ممالک یقینا اپنے ہاں معاشی مسائل پر قابو پا لیں گے لیکن ترقی پذیر
ممالک میں حالات مزید خراب ہوں گے جیسا کہ ماحولیاتی تحفظ سے متعلق حالیہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مختلف مقررین نے جس ایک نکتے پر سب سے زیادہ زور دیا وہ یہی ہے کہ گلوبل ساو¿تھ کے ممالک جن کی اُبھرتی ہوئی معیشتیں نازک مالی حالت کا سامنا کر رہی ہیں اور یہ صورتحال بالکل ویسی ہی ہے جب دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ نازک مالی حالت سے گزر رہا تھا اگر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کی مالی سکت رکھنے والے ممالک کی مدد نہ کی گئی تو اِس کے نتائج تباہ کن برآمد ہو سکتے ہیں۔ اس طرح کے نتائج روکنے کے لئے‘ مغربی ممالک کو کثیر الجہتی مالیاتی اداروں کو تبدیل کرنا چاہئے‘ بھلے ہی ایسا کرنے کا مطلب اپنے اثر و رسوخ میں کمی ہو۔ نئے عالمی فنانسنگ معاہدے کےلئے ’پیرس سمٹ‘ کا مقصد بھی تھا کہ اجتماعی بہتری کے لئے اقدامات کئے جائیں لیکن پرعزم ممالک حقیقت پسندانہ اور قابل عمل حل پیش کرنے میں ناکام رہے اور دنیا کو درپیش ماحولیاتی چیلنجز اپنی جگہ پریشان کن ہیں۔ مذکورہ ماحولیاتی کانفرنس (سمٹ) میں اُٹھائے گئے سوالات اور درپیش بے مثال چیلنجوں کے نئے حل تصوراتی طور پر غوروفکر کا موقع فراہم کر رہے ہیں لیکن عملی اقدامات کے طور پر سب سے پہلے پاکستان جیسے موسمیاتی تبدیلی کے شکار و دوچار ممالک کے قرضوں کی ادائیگی معاف یا مو¿خر ہونی چاہئے۔ دنیا کو جن ماحولیاتی چیلنجوں کا سامنا ہے اُن کی شدت میں عالمی مالیاتی نظام اضافہ کر رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ’بین الاقوامی ٹیکس میکانزم‘ بنانے پر زور دے رہے ہیں جبکہ دنیا کو سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اُور یہ بات اپنی جگہ پریشان کن ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں پیداواری صلاحیت تو موجود ہے
لیکن اِس شعبے میں سرمایہ کاری پر کے لئے وسائل موجود نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے حال ہی میں عالمی اقتصادی نظام میں ”غیر پیداواری اور غیر منافع بخش“ مالیات کی سرمایہ کاری کرنے اور مالیاتی عدم مساوات کو دوبارہ متوازن کرنے کے لئے اقدامات کا جامع لائحہ عمل تجویز کیا ہے۔ پیرس سمٹ کے شریک ممالک کو غوروخوض کے مراحل میں اقوام متحدہ کی جانب سے نشاندہی کئے گئے ’مالیاتی عدم مساوات‘ کی بحالی پر غور کرنا چاہئے تاکہ دنیا میں عملاً بہتری آئے اور آنے والے مہینوں اور سالوں میں اس کوشش کے ٹھوس نتائج برآمد ہوں‘ جن کا نکتہ¿ آغاز پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی مدد کی صورت ہونی چاہئے اگر ترقی یافتہ دنیا حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’اصلاحاتی ایجنڈے‘ پر عملاً کام کرتی ہے تو یہ ’گلوبل ساو¿تھ‘ کے ممالک (بشمول پاکستان) کے معاشی مستقبل اور اقتصادی ترقی کے لئے ’حقیقی امید‘ کا مظہر ہوگا اور یہی عالمی معاشی طاقتوں کی جانب سے دنیا کو درپیش مسائل کا پائیدار حل ثابت ہوگا۔