تاریخ کے جھروکوں سے

آج سے ہم اپنے کالموں میں تاریخ کی کتابوں میں درج دلچسپ مگر اہم واقعات کا بھی ہلکا سا تذکرہ کیا کریں گے تاکہ ان کی چاشنی زیادہ ہو جائے اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے قارئین کی معلومات میں اضافہ بھی ہوتا رہے۔ دنیا کی تاریخ پر کئی کتابیں رقم ہوتی آئی ہیں جو مختلف زاویوں سے لکھی گئی ہیں۔ہم اپنے ان اکابرین کی اس سوچ سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ یہ نہ دیکھو کہ لکھنا والا کون ہے بلکہ یہ دیکھو کہ وہ کیا لکھ رہاہے۔ لوگوں کی اگر فکری اصلاح اس اصول کے تحت کی جائے تو یہ بہتر بات ہے۔ آج ہم اپنے برادر ملک ترکیہ کی سب سے پہلے بات کر لیتے ہیں۔ اس ترکیہ کی کہ جس کے ساتھ ہمیشہ ہماری سیاسی ہم آہنگی بھی رہی ہے اور جس کے ساتھ ہم معاشی تعلقات میں بھی جڑے ہوئے ہیں اور جس نے ہر مشکل کی گھڑی میں ہمارا ساتھ بھی دیا ھے ۔ترکیہ وہ ملک ہے کہ جو اپنے جغرافیائی محل و قوع کے لحاظ سے یورپ میں بھی واقع ہے اور ایشیا میں بھی۔خالدہ ادیب خانم کے بقول ترکیہ کی نشاة ثانیہ کاآغاز سلطان سلیم سوئم کے عہد میں ہوا یہ وہ زمانہ تھا جب انقلاب فرانس کے نعروں سے سارا یورپ اور امریکہ گونج رہا تھا۔ جب ترکیہ معاشی لحاظ سے ڈانواں ڈول ہو گئی تو فرنگی اسے طنزیہ طور پر sick man of Europe کہلانے لگے یعنی یورپ کا بیمار فرد۔ یہ کمال اتاترک کی فراست سیاسی تدبر اور دور اندیشی تھی کہ انہوں نے یہ جان لیا تھا کہ ترکی کو دور حاضر کے تعلیمی اور سائنسی تقاضوں سے آشنا کرانے کیلئے ان علوم کی بھی ترکی میں ترویج کرنا ہوگی کہ جن کی بدولت یورپ کے کئی ممالک تعلیمی معاشی اور سائنسی میدانوں میں بہت آگے نکل گئے ہیں چنانچہ انہوںنے ترکیہ کو دھیرے دھیرے معاشی ترقی کہ راہ پر گامزن کیا۔ہمارے پڑوس میں افغانستان میں غازی امان اللہ خان نے بھی کچھ اسی قسم کی ایک کوشش کی تھی پر انہیں وہ کامیابی نصیب نہ ہو سکی جو کمال اتاترک کو ترکی میں نصیب ہوئی۔ انہوں نے ترکی کو معاشی بحران۔ سے نکالا اس کی نشاة تانیہ میں ان کا جو کردار تھا وہ کلیدی نوعیت کا تھا۔ان ابتدائی کلمات کے بعد چند دیگر اہم عالمی اور قومی معاملات کا ذکر بے جا نہ ہو گا۔اس وقت روس اور یوکرائن تنازعہ عالمی منظرنامے پر چھایا ہوا ہے اور اس کے اثرات پوری دنیا پر محسوس ہو رہے ہیں کیونکہ یہی ممالک زیادہ تر زرعی پیداوار برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں سے ہیں اور پوری دنیا کا انحصار غذائی اجناس کے حوالے سے روس اور یوکرائن پر ہے۔