کچھ شہریوں نے گذشتہ روز بھی قربانی کی ۔ صبح دیکھا کہ ہتھ گاڑی پردو لڑکے گائے کی اوجھڑیاں ہانپتے کانپتے لے جا رہے ہیں۔ قریب تو کوئی ڈھیر نہ تھا ۔ڈھیر تو بہت ہیں مگر وہاںجوقریب کا ٹھکانہ تھا وہ نہر تھی ۔ وہ جانے کہاں سے بہہ کر یہاں سے گزر رہی تھی اور جانے کہاں جا کر اس کا سلسلہ کسی بڑے نالے سے ٹچ ہونا تھا۔یوں بھی یہ نہر تو نہیں ایک میلوں دور تک پھیلے ہوئے ڈھیر کی شکل ہے‘ظاہرہے کہ ان کی گلی کے باہر یہ نہر بہہ رہی ہے جس میں وہ قربانی کے جانور کی آلائشیں پھینکیں گے۔مگر جہاں تک میںدیکھ پایا ہوں اور میری تو اس نہر کنارے عرصہ دراز سے گزران ہے میں نے اس نہر کو بیدردی کے ساتھ غلط طور پر استعمال ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ چلو فلش کی اور بات ہے کہ پانی کے ساتھ غلاظت آگے کو جاتی رہتی ہے۔ مگر بڑی عید کے دنوں میں یہاں اس پانی کے ریلے میں اوجھڑیاں اور بھینسے کے سینگوں والے سر بھی پھینک دیتے ہیں۔ جو اتنے وزنی ہوتے ہیں کہ اس پتلے پتوں جیسے پانی کے بس کا روگ نہیںہوتا کہ ان کو بہاکر آگے لے جائے۔ عملہ صفائی پہلے سے زیادہ متحرک ہے ۔ کیونکہ انھوں نے صفائی کا پورا پلان تیار کر رکھا ہے جیسا کہ پچھلے سال بھی انھوں نے صفائی ستھرائی میں خوب کردار ادا کیا تھا ۔اب اس سال پھر ان کا ایک اور امتحان ہے کہ دیکھیں وہ کیا کرتے ہیں۔مگر ا س کے ساتھ ساتھ سب گند عملہ صفائی کے کھاتے میں ڈال دینا بھی تو درست نہیں۔ اتنا تو کریں کہ صفائی کے اہلکاروں کی مدد کریں اور کم از کم اس حد تک کہ آلائشوں کو درست مقام پر جا کر پھینک کر آئیں جہاں ڈھیر پر سے سرکاری کارندے یہ گاڑیوں میں ڈال کر شہر سے دور جا کر پھینک دیں‘سوک سینس بھی ایک چیز ہے جس سے ہم چندا ں واقف نہیں۔ اگر سوک سینس نہ کہیں شہریت کہہ لیں تویہ شہر میں رہنے سے آجانی چاہئے۔پھر صفائی ستھرائی تو اچھی چیز ہے خواہ شہر میں ہویا شہرسے باہر ہو۔صفائی ہر مقام پر قابلِ تعریف ہے اور جانی مانی چیز ہے ۔بدقسمتی ہے اور پھر ہمارے اپنوں ہی کا کیا دھرا ہے کہ ہمارے وطن کے دو شہر دنیا میں گندگی کے لحاظ سے ٹاپ ٹین کی فہرست میں اوپری نمبروں پر ہیں۔یعنی پشاور اورکراچی ۔مگر کچھ عرصے قبل ستم یہ ہوا کہ اب تیسرا شہر بھی اس فہرست میںشامل کردیا گیا ہے اور وہ ہے لاہور۔پچھلے دو ایک سالوں میںتو آلودگی کے لحاظ سے بعض حوالوں سے لاہور تو ٹاپ ون رہاہے۔یہ نہ ہو کہ اس فہرست سے دوسرے شہروں کے نام نکلتے جائیںاور اس میں ہمارے دوسرے شہروں کے نام دھڑا دھڑ ڈالے جائیں ۔پھر فہرست ہمارے ہی شہروں کے ناموں سے اتنی بھری ہو اور مزید اس میں اگر ٹاپ ٹوئنٹی کا تذکرہ ہو تو تب بھی ہمارے شہروں ہی کے نام اس میں لکھے ہوں ۔کیونکہ ہم میں سوک سینس جو باقی نہیں رہا ۔یہ سب کچھ تعلیم کے ذریعے آتا ہے‘ یہ ساری عرضداشت اس لئے ہے کہ وہ لڑکے جو گائے کی اوجھڑی کو نہر میںگرانے کے لئے لے جارہے تھے اگر ہمت کر کے تھوڑی دور بڑے ڈھیر پر پھینک آتے تو اس جانور کی آلائش کا کوئی نہ کوئی بندوبست ہو ہی جاتا ۔اب صفائی کے اہلکار نہر کے نیچے تو نہیںاتر سکتے کہ ڈھیروں پر سے بھی آلائشیںاٹھائیں اورساتھ ہی نہروںمیں اتر کر وہاں سے بھی آلائشیں نکال کر گاڑیوں میں ڈالیںاوردو ردراز لے جائیں۔ تالی نے جب دونوں ہاتھوں سے بجنا ہے تو پھرہم عوام نے بھی اس صفائی ستھرائی میں صفائی کے عملے کے ساتھ مل کر اپنا کردار اس حد تک تو ادا کرنا ہے کہ گھر کے قریب کوئی خالی جگہ دیکھ کر وہاں گندنہیں پھینکنا بلکہ تھوڑا دور سہی مگر گند کی جگہ جو مخصوص ہے وہاں گند پھینک کر آ جائیں۔ اگر اس حد تک بھی تعاون کیا جائے تو مجال ہے کہ ا س پھولوں کے شہرمیں خوشبو کے بجائے جگہ جگہ پھینکی گئی جانوروں کی آلائشوں کی بُو آئے۔ اس حوالے سے ہم سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کم از کم اپنے محلے اور گلی کی حد تک صفائی کی ذمہ داری اپنے سر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پورا شہر صاف ستھرا نہ ہو۔