پشاور کی عید اب بھی ویسی ہی ہوگی؟

کبھی کبھی خیالوں کے تانے بانے اپنے بچپن اور لڑکپن سے جا ملتے ہیں جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں‘ میرے بہت ہی قدیم زمانے کا باپ دادوں کے وقت کا دروازہ ہے اس کے اوپر باہر کی طرف چھ سات کلو بھاری لوہے کی کنجی لگی ہوئی ہے حالانکہ اس کو کنجی کہنا بڑا نزاکتی لفظ ہے لیکن پشاوری زبان میں اس کی لطافت کا یہی عالم تھا اس کنجی کی آواز بھاری تھی‘ لیکن گھر کے صحن میں ہی ہر وقت بیھٹنے والی ہماری ماں کو فوراً ہی اس کی آوازآجاتی تھی‘ جیسے اپنے بچوں اور اپنے رشتہ داروں کیلئے وہ آنکھیں واکئے صحن میں بچھے ہوئے منجے پر ہر وقت منتظر بیٹھی ہی ہوتی تھی‘ ان زمانوں میں صحن کی اہمیت بیک وقت ایک لاؤنج‘ ایک ڈرائنگ روم اور ایک انتظار گاہ کی ہوا کرتی تھی‘ مجھے یاد ہے بہت بڑے بڑے پایوں والا منجا(چارپائی) صحن میں پڑا ہوتا تھا دو تنی پیڑھیاں یا کرسیاں بھی ہوتی تھیں‘صحن کا لال اور سبز فرش چمک رہا ہوتاتھا ایک طرف اونچا سا باورچی خانہ ایک طرف تو جس کے مٹ  پانی سے بھرے ہوئے‘ ایک درمیانے سائز کاحمام‘جس کے پاس چوکی پڑی ہوتی ہے‘ جہاں ساتھ ساتھ گندے برتن دھونے کا بہترین اور صاف ستھرا انتظام ہوتاتھا اسی طرح بڑی عید آجاتی تھی جس کو ہم پشاوری میں وڈی عید کہتے تھے‘ پشاور کے لوگ  سفید پوش ہوتے تھے ان دنوں قربانی بہت امیر لوگ کرتے تھے‘ ہم بھی سفید پوش یا غریب طبقے میں شمار ہوتے تھے‘ ایک بیوہ عورت اپنی ضروریات زندگی پورا کرنے کے بعد کہاں اتنے پیسے بچا سکتی ہوگی‘ کہ وہ قربانی جیسے فرض سے سبکدوش ہو‘ گو کہ دنبے بکرے گائیں ضرور سستی ہوں گی لیکن اپنے اپنے وقت کے حساب سے سب کچھ مہنگا لگتا ہے ان دنوں روپے کی ویلیو زیادہ تو تھی لیکن روپیہ وافر نہیں ہوتا تھا ہماری گلی میں ایک واحد گھر بہت امیر کبیر ہوتا تھا  ویسے تو ان کی تنگ دلی اور نظر اندازی کے بے شمار واقعات ہیں لیکن عید والے دن ان کی دہلیز پر بے شمار دنبے اتنے خوبصورت لگتے کہ دل خوش ہوتا اور دل میں یہ احساس بڑی طرح جاگ اٹھتا کہ ضرور ان کا گوشت ہمارے گھر بھی آئے گا‘ ہماری ماں ہمیشہ ہی بچوں کی خوراک کے معاملے میں بہت پروقار تھی ہفتے میں دو دن گوشت قیمہ آتا تھا گو کہ اس کی مقدار تھوڑی ہوتی تھی باقی دنوں میں سبزیاں دالیں پوری ہو جاتی تھیں‘ ہماری ماؤں کو بیٹے بہت اچھے لگتے تھے‘ جب بھی گوشت پکتا اس کا اچھا حصہ بیٹوں کے لئے مختص ہوتا‘ ہمارے حصے میں ہڈیوں والا گوشت اور شوربہ ہوتا‘ گو کہ بیٹیاں ہی اپنے والدین کی آخیر دنوں میں خدمت سے لے کر لحد تک پہنچانے تک اپنا دن رات ایک کر دیتی تھیں‘ لیکن ماں کا دل تو بادشاہ کی طرح ہوتا ہے بیٹوں کے بارے میں ایک لفظ سننا پسند نہیں کرتی تھیں‘ میری ماں بڑھاپے تک اپنے بیٹوں کی کوئی کمزوری یا ہلکی سی برائی بھی ہمارے منہ سے سننا پسند نہ کرتی تھی‘ تو بات دہلیز کے دنبوں سے آگے نکل گئی‘ ہم اپنی باریوں کھڑکیوں سے ان حسین دنبوں کو دیکھتے اور پوری پوری امید رکھتے کہ اب دروازے کی کنجی کھڑکے گی لیکن رات گئے تک یہ انتظار ختم ہو جاتا بالکل اسی طرح کہ اس امیر گھر میں گوشت بھی ختم ہو جاتا البتہ محلے کے کچھ اور امیر لوگ بالکل ایک مٹھی بھر گوشت ضرور پہنچا کر اپنا فریضہ پوراکرتے ہاں البتہ میری ماں اور باپ کے کروڑ پتی رشتہ دار جو پشاور کے نامی گرامی ناموں سے آج بھی اپنی پہچان رکھتے ہیں ان کے باپ دادا بھی کسی کے ہاتھ اپنے رشتہ داروں تک تھوڑا تھوڑا حصہ ضرور پہنچاتے تھے اس طرح کہ تقسیم کرنے والے کے ہاتھ میں سفید پوش رشتہ داروں کی فہرست ہوتی اور گوشت کابڑا سا پتنوس مزدور کے سر پر رکھا ہوتا‘ یوں عید کا دن گزر جاتا‘ یہ وہ زمانہ تھا جب فریج یا فریزر کا وقت نہیں ہوتا تھا اور اگر کہیں لاکھ پتی لوگوں کے گھروں میں ہوتا ہو گا تو ایسا خال خال ہی ہوتا تھا اس لئے اس گوشت کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے بانٹ دیا جاتا تھا‘ لیکن اب تو ایسی مشینیں آگئی ہیں کہ چھ ماہ سے زائد تک بھی گوشت فریزر سے تازہ نکل آتا ہے  ہر زمانہ اپنے اپنے وقت کے لحاظ سے  چلا آیا  ہے۔ جب رب نے مجھے خود قربانی کرنے کی توفیق دی تو اپنے بچپن کی کئی یادیں اورمحرومیاں میرے ساتھ ہوتی تھیں‘ سفید پوش لوگ جو مانگ بھی نہیں سکتے میری سب سے بڑی اور اولین آرزو وہی ہوتے میں اپنے چھوٹے بچوں کے سامنے تین بڑی بڑی سارے گوشت کی ڈھیریاں بنا کر رکھ دیتی اور پوچھتی کہ خدا کے نام پر غریبوں کو دینے والا حصہ کون سا ہے‘ خدا کی شان کہ سب سے بڑی اور اچھی ڈھیری پر بچے کا ہاتھ ہوتا‘ اور وہ غرباء و مساکین کو دے دیتی‘ ایک ڈھیری ہمسائے رشتہ دار اور ایک ڈھیری اپنے گھر کیلئے رکھ دیتی اور اب عمر کے اس حصے میں تو اپنے فریج فریزر میں زیادہ گوشت رکھنے کو دل ہی نہیں کرتا ان تک پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے جنہوں نے پورا سال گوشت کی شکل بھی نہیں دیکھی اب بڑے اچھے متوسط طبقے کے لوگ بھی گوشت کی شکل دنبے گائیں لٹکتے ہوئے قصائی کی دوکانوں میں آتے جاتے دیکھتے ہیں‘ زمانہ برق رفتار ہوگیا ہے اور اس برق رفتاری میں تمام بردباری‘رکھ رکھاؤ‘ محبت ہمدردی‘ میانہ روی‘ لحاظ‘پاس‘ سب تنکوں کی طرح بہہ کر جار ہا ہے۔