اداکار شکیل

برسوں پہلے ہمارا اپنے سسرال کراچی جانا ہواتھا‘وہاں پہنچ کر مجھے کچھ ضروری کام کرنا تھے۔ایک تو ضیاء محی الدین سے ملنا تھا‘پھر دوسرا یہ کہ وہاں شاعروں ادیبوں کے اکٹھ حلقہ ئ اربابِ ذوق کے اجلاس میں شرکت کرنا تھی یہ اجلاس کراچی آرٹس کونسل کی عمارت میں ہوتے ہیں۔جیسے ہمارے ہاں پشاور نشتر ہال میں اباسین آرٹس کونسل ہے‘ ویسے وہاں یہ ادارہ ہے۔مگر کراچی کا ادارہ بہت زیادہ فعال اور پُر بہار تھا۔وہاں کے سیکرٹری احمد شاہ کے بہت وسیع اختیارات تھے۔ وہاں اندر داخل ہونا‘ گیٹ پر اپنی شناخت بتلانا او رکارڈ وغیرہ جمع کروانا۔پھر یہ بڑی عمارت کا ادارہ تین منزلہ ہے۔ہر کمرے اور ہال میں کچھ نہ کچھ پروگرام ہو رہا ہوتا ہے۔کہیں سٹیج ڈرامہ ہو رہا ہے تو کہیں مشاعرہ برپا ہے۔کہیں ادبی محفل ہے تو کہیں کسی کتاب کی تقریبِ رونمائی‘بہ یک وقت جاری ہے‘اندر جاؤ تو گم ہو جاؤ‘بندہ سوچتا ہے کہ میں کس پروگرام میں حصہ لوں۔ گیٹ پر ہاتھ میں ٹائم ٹیبل تھما دیا جاتا ہے۔اب یہ آپ کی مرضی کہ آپ جہاں جانا چاہیں۔اگر نہ ہو تو کینٹین میں جاکر چائے وائے پیئیں۔اپنی ہمابیگ شاعرہ بھی ان دنوں وہاں تھیں۔ جو پشاو رسے شوہر کے تبادلے کے بعد کراچی اپنے آبائی شہر میں شفٹ ہو گئی تھیں‘میں نے وہاں مختلف پروگرامات میں شرکت کی‘ایک جگہ  کہیں پٹھانوں کا مجمع زیادہ تھا۔سٹیج سجا ہوا تھا اور رش تھا بڑے قد آدم سپیکر لگے تھے‘معلوم ہوا کہ کتاب کی تقریبِ رونمائی ہے۔اپنے پیارے دوست اباسین یوسفزئی نظر آئے جو پروفیسر طہٰ خان کے ساتھ سٹیج پر مصروف تھے۔اصل میں طہٰ خان نے رحمان بابا کے کلام کا منظوم ترجمہ کیا تھا۔پھر وہ ترجمہ انہوں نے اباسین یوسفزئی کی مدد سے کیا تھا۔کیونکہ طہٰ خان پشتو سے نابلد تھے او ران کی آنکھوں کی روشنی بھی نہ تھی‘اباسین ان کو پڑھ کر سناتے او رساتھ میں رحمان بابا کے کلام کا ترجمہ بھی اردو کر کے دیتے۔طہٰ خان وہ سن کر اس کو شعر کے قالب میں ڈھال دیتے۔یوں ایک کتابی شکل میں سرمایہ اکٹھاہوگیا تھا۔ اس کو شائع کر کے اس کی رونمائی کی تقریب وہاں برپا تھی۔ہم سٹیج پر جا کر اباسین سے بھی ملے اور طہٰ خان سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ بہت خوش ہوئے کیوں نہ ہوں گے کہ اپنے ہی شہر سے کوئی بندہ ان کی تقریب میں شریک ہو۔کراچی کی کروڑوں کی آبادی میں ایک اندازے کے مطابق ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تو صرف پختون ہیں جو وہاں کے پیدائشی رہائشی ہیں‘ جن میں بیشتر نے تو پشاوربھی سرے سے نہیں دیکھا جبکہ پورے ضلع پشاورکی آبادی تو تقریباً چالیس لاکھ ہوگی‘میں وہا ں سے فارغ ہوا تو اوپروالی منزل میں سیر کو چل دیا۔رانی بانو بھی ساتھ تھیں۔اوپر ہال میں بھی ایک کتاب کی تقریب رونمائی تھی۔کوئی انگریزی کی ایم بی بی ایس ڈاکٹری کتاب تھی جو کسی دل کے ڈاکٹر نے مریضوں کو نصیحت کے طور لکھی تھی۔وہا ں دروازے سے دیکھا تو خوشی ہوئی کہ سٹیج پر اداکارشکیل تقریب کی نظامت کر رہے تھے۔وہاں سٹیج پر مرحومہ زبیدہ آپا اور ساتھ فاطمہ ثریا بجیا بھی تھیں۔ ہم وہاں بیٹھ گئے۔بہت ہنسی مذاق کا ماحول تھا۔اداکار شکیل کو کہتے سنا کہ میں یہاں کراچی کے ایک پٹھان ڈاکٹر کے ہسپتال گیاتھا۔ وہ اب اپنا ہسپتال پشاور میں شفٹ کر چکے ہیں۔انہوں نے مجھے پرہیز کے لئے مختلف کھانوں سے منع کیا تھا لیکن ایک بار ایسا ہوا کہ ایک شادی بیاہ کی تقریب میں کھانے کے دوران میں جہاں سب لوگ کھا پی رہے تھے میں وہاں بھوکا پیاسا کھڑا تھا۔سوچ رہا تھا کہ میرے تو کھانے کے پرہیز کی کوئی چیز یہاں موجود نہیں ہے کیا کروں۔ اچانک مجھے میرے ڈاکٹر صاحب وہاں نظر آئے جو اپنا مزے سے کھانا تناول فرما رہے تھے‘میں ان کے پاس پہنچا کہا ڈاکٹر صاحب آپ نے جن پرہیزی کھانوں کاکہا ہے ان میں سے تو ایک بھی یہاں موجود نہیں ہے۔اب میں کیا کروں کیا کھاؤں۔اس پرڈاکٹر نے پشتو کے لہجے میں  اردو بول کر کہا قریب آؤ‘میں آگے بڑھا تو فرمانے لگے۔ڈاکٹر کی بات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا کرو۔ جاؤ جو جی میں آتا ہے کھاؤ۔ اس بات پرپورا ہال ہنسنے لگا۔وہاں پروگرام کے بعد ہماری بیگم صاحبہ فاطمہ ثریا بجیا سے گھل مل گئیں ان کو پشاور کا کہا کہ ہم وہاں سے آئے ہیں وہ بہت خوش ہوئیں بلکہ اس حد تک کہ پشاور واپس آجانے کے بعد بجیا سے فون پر بھی رابطہ رہا۔ مرحومہ فرماتی تھیں رانی میں پشاور آئی توتمہارے گھرمیں ٹھہروں گی۔اتنا بے تکلف سا انداز کہ جیسے ہماری ان کے ساتھ رشتہ داری ہومگر پھروقت نے مہلت ہی نہ دی۔دو طرفہ مصروفیات بڑھ گئیں۔ اب تو اداکار شکیل اس عید سے ایک دن پہلے فوت ہوگئے۔مگر دل کے مریض ہو کر اچھا خاصا جی گئے۔پچاسی سال عمر مگر موت کا کیا ہے کس کو کس وقت آن دبوچے  وہ کسی کی غمر نہیں دیکھتی‘خیر بہر حال اداکار شکیل کی بہت سی یادیں ہیں جن کا تعلق ٹی وی کے ساتھ ہے جو سب کو معلوم ہے۔اس طرف نہیں جاتے۔اپنی سی یادیں شیئر کی ہیں تاکہ قارئین کا ذوق تازہ ہو۔خدا کرے کہ جو اب بیمار ہیں ان کو شفا ملے او روہ لمبی چوڑی زندگی جیئیں۔ وہ جو ہمارا ہر میدان میں سرمایہ ہیں ان کو بھی لمبی زندگی عطا ہوتاکہ ہم ان کو دیکھتے دیکھتے اپنی عمریا بتا دیں۔احمد شاہ کے کراچی آرٹس کونسل میں ہم نے حلقہئ اربابِ ذوق کا اجلاس بھی اٹینڈ کیاتھا جس کا اپنا الگ ایک لطف تھا۔یہاں تو خیر فنونِ لطیفہ کی اتنی وقعت نہیں مگر وہاں یہ چیزیں زیادہ احسن طریقے سے پنپ رہی ہیں۔ یہاں تو ہمارے یار بیلی اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ ان کو پل بھر کی فرصت نہیں کہ اباسین آرٹس کونسل کی تقریبات میں شرکت کرسکیں۔ مگر وہا ں تو اور ہی عالم ہے ہفتہ بھر کا شیڈول چاک آؤٹ کردیتے ہیں جو گیٹ پر مل جاتا ہے۔شعر و ادب اور فن اداکاری وغیرہ سے رغبت رکھنے والوں کے لئے وہاں بہت کچھ ہے۔