شاید کہ تیرے دل میں اتر جاے میری بات

 وہ ممالک کہ جن میں جمہوریت رائج ہے وہ اپنی اپنی ضروریات اور روایات کے مطابق اپنے جمہوری ڈھانچوں میں ترامیم کے ذریعے وقتا ًفوقتا ًردو بدل کرتے رہتے ہیں ۔ہماری دانست میں اس ضمن میں وطن عزیز میں بھی کچھ اقدامات اٹھانے کی فوری ضرورتت ہے۔ایک ایسا الیکٹورل سسٹم وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ الیکشن میں افراد کی بجائے سیاسی پارٹیوں کو ووٹ ڈالے جائیں، موجودہ نظام میں صرف وہی فرد الیکشن لڑ سکتا ہے کہ جو خطیر سرمایہ رکھتا ہو اور بہت سے ایسے لوگ انتخابات سے دور رہتے ہیں جو صلاحیت تو رکھتے ہیں تاہم وہ الیکشن اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنا منشور اور اس کے آخری صفحہ پر قومی اسمبلی کے لئے نامزد امید واروں کے نام شائع کرے اسکے بعد پورے ملک میں ڈالے گئے ووٹوں کی کل گنتی کی جائے پہلے ہر پولنگ سٹیشن پر پھر ہر حلقہ کے مرکز پر پھر ہر شہر اور ضلع کے ووٹ جمع کیے جائیں۔ پھرتمام ضلعوں میں مختلف جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کو جمع کیا جائے تاکہ صوباہی سطح پر مختلف سیاسی جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں سے ان کی طاقت کا اندازہ کیا جائے اس کے علاہ تمام صوبوں کے ووٹ جمع کئے جائیں تاکہ قومی سطح پر ان جماعتوں کی طاقت کا اندازہ ہو سکے اگر کوئی سیاسی جماعت کل ڈالے گئے ووٹوں کا کم از کم دس فیصد بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے تو اسے مرکز یا صوبوں میں نمائندگی حاصل کرنے کے لیے نااہل قرار دیا جاے۔ مثال کے طور پر 
فرض کریں کہ پاکستان کے عام انتخابات میں پانچ سیاسی جماعتیں حصہ لیتی ہیں بلوچستان سے 10 لاکھ خیبر پختونخوا سے 40 لاکھ اور پنجاب سے ایک کروڑ لوگ اپنا حق راے دہی استعمال کرتے ہیں یعنی کل دو کروڑ ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ اب فرض کریں کہ ان مختلف جماعتوں کو یوں ووٹ ملتے ہیں کہ ایک پارٹی ایک کروڑ دس لاکھ ۔ دوسری پارٹی کو 50 لاکھ، تیسری پارٹی کو 25 لاکھ، چوتھی پارٹی کو ڈیڑھ لاکھ اور پانچویں پارٹی کو13 لاکھ پچاس ہزار ووٹ ملتے ہیں۔ چونکہ آخری پارٹیاں پاکستان میں ڈالے جانے والے کل ووٹوں کا دس فیصد یعنی 20 لاکھ بھی حاصل نہیں کر سکیں اس لیے ان کو قومی اسمبلی میں کوئی نمائندگی نہیں ملے گی ۔اب فرض کریں کہ قومی اسمبلی میں کل 200 نشستیں ہیں اور کل دو کروڑ ووٹ ڈالے گئے اس لئے فی نشست اوسط ا ایک لاکھ ووٹ حصہ میں آئیں گے اس طرح قومی اسمبلی میں اوپر والی تینوں جماعتوں کی نمائندگی یوں ہو گی۔پہلی پارٹی کو119 ، دوسر ی پارٹی کو 54 ، تیسری پارٹی کو27 ۔اس مثال کے مطابق پارٹی الف کو حکومت بنانے کا حق حاصل ہوگا۔اس طریقہ کار کے مطابق ایک تو تمام جماعتوں کو ان کی اصل طاقت کے مطابق صحیح نمائندگی ملے گی دوسرے یہ کہ الیکشن پر اخراجات میں بڑی کمی ہو جائے گی اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے الگ الگ الیکشن کرانے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔اس کے علاہ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی جماعت کے بہترین لوگوں کو اسمبلیوں میں بجھوانے کا موقعہ ملے گا،اس کے علاہ عوام کی نمائندگی نہ رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی حوصلہ شکنی ہو گی اور ملکی سطح پر دو یا تین بڑی جماعتیں اُبھریں گی۔اس سے جمہوریت پر عوام کا اعتماد بڑھے گا اور اس طرح ان کے مسائل بھی حل ہونگے ۔