یہ ایک خوبصورت نظم ہے۔ منیر نیازی کی ہے ۔جس میں وہ زندگی کے مختلف حوالوں سے اپنی سستی کا ذکر کرتا ہے ۔ضروری نہیں کہ یہ کاہلی ان کی اپنی ذاتی ہو۔ شاعر دوسروں کے دکھ اور مسائل بھی اپنی شاعری میں پیش کرتا ہے۔مگر ان کو اپنا جان کر اور اپنے حوالے سے پہچان کر وا کے بتلاتا ہے ۔تاکہ دوسرا بندہ خفا نہ ہو ۔اس بات پر کہ اس کو ہم میں خامیاں نظر آتی ہیں او رخود کو یہ مکمل سمجھتا ہے۔منیر نیازی نے فرمایا کہ ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ۔مگر میںاسی مصرع کو لے کر کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ بحیثیت قوم ہمیشہ دیر کردیتے ہیں ہم ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کتنے فنکار ہیں جو اپنے فن میں یکتائے زمانہ ہیں ۔مگر ان کی پذیرائی اور توقیر کے لئے ان کے زندہ اور جیتے جی نہ کوئی پروگرام ہو پاتا ہے او رنہ ہی ان کو کسی ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے۔بلکہ جب وہ ہیرو انتقال کر جاتا ہے تو قوم کو بعد میں خیال آتا ہے اور اس کی یاد میں سیمینار منعقد ہوتے ہیں۔ان کو بعد از مرگ تمغہ دیئے جاتے ہیں۔ ان مرحومین کی اولاد کو بلا کر سٹیج پر بٹھاتے ہیں اور باری باری مقررآ کر مرحوم کی یاد میں اس کے کارناموں کا ذکر اتنے پیارے اور دلنشین انداز میںاس طرح کرتے ہیںکہ مرحوم تو ایک طرف رہ جاتا ہے ۔ اس وقت اس تقریر کرنے والے کے اندازِ بیان اور جوشِ خطابت کی اتنی تعریف ہو جاتی ہے کہ لگتا ہے کہ مرحوم کا اعزاز اس مقرر کے گلے میں پہنایا جا ئے گا۔ نام لینا اچھا نہیں ہوگا ۔مگر ہر فیلڈ میں کچھ تو ابھرتے ہوئے ستارے ہیں جن کی پذیرائی کی اشد ضرورت ہے کہ تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور ان کے ٹیلنٹ میں مزید نکھار آئے۔یہ کام بہت ضروری ہے تاکہ کھلاڑی ہو یا کسی اور میدان میں نمایاں کردار کا حامل ہو اس کی نفسیاتی برتری کے لئے اس قسم کے لئے پروگرام کرنا بہت ضروری ہے ۔مگر ہم ایسا نہیںکرتے ۔ہم ہمیشہ دیر کردیتے ہیں۔ان فنکاروں کے بعد موت معلوم ہوپاتا ہے کہ وہ تو ہمارے گلستان کا سب سے زیادہ خوشبودار پھول تھا وہ ہمارے آسمانِ ادب کا ایک رخشندہ ستارہ تھا ۔یہ او راس نوعیت کی باتیں ہمیں بعد میں پتا چلتی ہیں تو بجائے اس کے ہم افسوس کا اظہار کر لیں ہم اس کی یاد میں ریفرنس منعقد کرتے ہیں۔کیا ہی بہتر ہو کہ فنکاروں اور ستاروں کی خدمات کا ان کی زندگی میں ہی اعتراف کیا جائے۔یہی ایک بہتر طریقہ ہے ان شخصیات کو خراج تحسین پیش کرنے کا جو کسی بھی شعبہ میں نمایاں خدمات انجام دیتی ہے ۔ بعد از مرگ اگر تمغہ دیا جائے تو وہ اپنی جگہ اہمیت تو رکھتا ہے کہ اگر مرنے والے کا دل خوش نہ ہوسکا تو کیا اس کی قوم کو فخر کرنے کے لئے اس ہیرو کی مثال پھر بھی زبردست ہی ہوگی ۔مرحوم کے بچوں کے لئے بھی یہ تقریب نیک فال ثابت ہوتی ہے ۔مگر جو مرگیا تو اس کو تو پتا ہی نہ چلا کہ میرے اعزاز میں کوئی تقریب جاری ہے۔پھرہمارے ہاں اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ کسی گھرانے میں بس ایک ہی فنکار ہوتا ہے بلکہ پورے خاندان میں ایک ہی فرد تنہا نمایاں کردار کا حامل ہوتا ہے۔باہر کے لوگ تو چھوڑیں خود اس کے گھر والوں تک کو اپنے ماں باپ اور بھائی کے بارے میں اس کے فن کی یکتائی کا علم ہی نہیں ہو پاتا۔اس کی زندگی میں وہ سمجھتے تھے کہ یہ ویسے ہی وقت ضائع کر رہا ہے۔حتیٰ کہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کو ملنے والے ایوارڈز کی قدر و قیمت کو نہیں جان پاتے۔یہ فنکار عام طور سے گھر میں اور خاندان میں اکیلا ہی ہوتا ہے جبکہ اس جیسا خاندان میں تو کیا پورے ارضِ وطن میں نہیں ہوتا۔زندگی میں قدر کرنے کی روش اگر ہم میں آ جائے تو اس سے فنکاروں ‘ کھلاڑیوں اور قلم کاروں کو ان مشکلات سے نہیں گزرنے پڑے گا جن کا ان کو بسا اوقات زندگی کے آخری ایام میں سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اگر ان کو آسودگی دی جائے تو یقینا یہ ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ ہے اور یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ معاشرے کا ہر فرد اگر اس حوالے سے اپنے حصے کا کردار ادا کرے تو اس سے بڑی تبدیلی آئے گی ۔