کرکٹ: سبق آموز کہانی

ویسٹ انڈین کرکٹ ٹیم کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے اور مسلسل خراب کھیل کی وجہ سے عالمی فاتح رہی یہ ٹیم اُس کم ترین معیار تک بھی نہیں پہنچ پائی ہے جہاں یہ کرکٹ کے عالمی مقابلوں میں حصہ لے سکے۔ کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ ’ورلڈ کپ‘ کے لئے کوالیفائی کرنے والی ٹیموں میں ویسٹ انڈیز کا نام شامل نہیں۔ وہ سبھی عظیم کھلاڑی جو شائقین کرکٹ میں اپنے دھواں دھار کھیل (کالی آندھی) کے نام سے مقبول ہیں اُور جنہوں نے ویسٹ انڈیز کو پہلے دو ورلڈ کپ اور تیسرے ورلڈ کپ کا فائنل جیتنے میں اہم کردار ادا کیا تھا‘ اُن کی مہارت و تجربہ بھی ویسٹ انڈیز کے کام نہیں آ سکا ہے۔ یہاں تک کہ کرکٹ کے وہ ’ستارے‘ جو دوہزاردس کی دہائی میں ’ٹی ٹوئنٹی مقابلوں‘ پر حاوی رہے اور جن کا غلبہ ناقابل شکست تصور کیا جاتا‘ اب ماضی کی یادگار بن گئے ہیں۔ کرکٹ میں شاندار کردار ادا کرنے کے بعد ویسٹ انڈیز کا سورج غروب ہو چکا ہے لیکن اِس سبق آموز کہانی کا پاکستان جیسے عالمی کرکٹ کھیلنے والے ممالک کو بغور مطالعہ کرنا چاہئے کہ کس طرح ایک ناقابل شکست ٹیم اِس قابل بھی نہیں رہی کہ وہ اپنی کم سے کم حیثیت کا دفاع کر سکے۔ ویسٹ انڈیز کی کارکردگی کے باعث اِسے ورلڈ کپ کے ’کوالیفائر راﺅنڈ‘ سے گزرنے پر مجبور ہونا پڑا جہاں اِس کا سامنا زمبابوے اور ہالینڈ (نیدرلینڈ) جیسی کمزور ٹیموں کےساتھ تھا لیکن اِسے وہاں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد ورلڈ کپ میں پہنچنے کےلئے اپنے تمام ’سپر سکس میچز‘ جیتنے کی ضرورت تھی لیکن ’سکاٹ لینڈ‘ کے ہاتھوں یک طرفہ مقابلے کے بعد شکست نے صرف ویسٹ انڈینز ہی کو نہیں بلکہ شائقین کرکٹ کو بھی مایوس کیا ہے جو ویسٹ انڈینز کی واپسی اُور ایک تیز رفتار کرکٹ مقابلے دیکھنے کے متمنی تھے۔ توقع ہے کہ ویسٹ انڈینز کا اگلا مقابلہ ’سری لنکا‘ کے خلاف بھی زیادہ مختلف ثابت نہیں ہوگا کیونکہ سری لنکا ایک مضبوط ٹیم ہے اُور اُس نے پہلے ہی ورلڈ کپ کے کوالیفائنگ میں بہترین ریکارڈ کے ساتھ کامیابی حاصل کرتے ہوئے ورلڈ کپ میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ غور طلب ہے کہ ’ویسٹ انڈیز‘ ایک سال نہیں بلکہ گزشتہ کئی برس سے تنزلی کا شکار ہے‘ یہ گراوٹ غیرملکی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ لیگوں کی وجہ سے زیادہ ہوئی کیونکہ ویسٹ انڈینز کے کھلاڑی دیگر ممالک میں کھیلنے کو ترجیح دینے لگے اور اِن کی دیگر مصروفیات کی وجہ سے آپس میں کھیلنے کے مواقع کم ہو گئے جس کی وجہ سے ایک دوسرے کو سمجھنا اور ’ٹیم ورک‘ کی صورت مل کر کھیلنے کا فقدان دیکھنے میں آیا۔ ایک عرصے سے ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں کے لئے باقاعدگی سے ایک ساتھ کھیلنا اور پریکٹس کرنا مشکل رہا ہے۔ یہ بات کتنی اہم ہے اور کرکٹ کے کھیل پر اِس کے کیا اثرات ہوں گے یہ جاننے کے لئے صرف یہی حقیقت کافی ہے کہ ویسٹ انڈیز پندرہ ممالک اور خطوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اِس کے اہم کھلاڑی باقاعدگی سے ایک ہی جگہ پر رہتے ہیں کیونکہ وہ دنیا بھر کی لیگوں سے زیادہ سے زیادہ آمدنی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ درحقیقت ویسٹ انڈیز کے کئی سرکردہ کھلاڑیوں نے قومی ٹیم کےلئے کھیلنے سے بھی انکار کر دیا ہے اور خود کو اپنی کلب ٹیموں کےلئے فٹ رکھنے کو ترجیح دی ہے تاہم جیسا کہ ویسٹ انڈیز کے سابق اسٹار ایان بشپ نے کہا تھا کہ زمبابوے نے اسی طرح کے چھوٹے کھلاڑیوں کے پول اور محدود وسائل کے باوجود ٹورنامنٹ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو ویسٹ انڈینز کی واپسی بھی ممکن ہے جس کےلئے بہتر انتظامیہ اور مینجمنٹ کی ضرورت ہے اور ٹیم کی موجودہ قیادت کو اپنی غلطیوں سے سیکھنے میں مدد ملنے کی توقع ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی ٹیم کی واپسی اُس کے سیکھنے کا عمل اور کوشش فوری عمل کا نتیجہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی ایک جادو اُس ٹیم کو عالمی کرکٹ میں واپس لا سکتا ہے تاہم ویسٹ انڈیز کی ساکھ اچھی ہے اور اُس کے ہاں پاکستان کی طرح ٹیلنٹ کی بھی کوئی کمی نہیں‘ صرف ضرورت اِس بات کی ہے کہ ویسٹ انڈیز میں کھیل کے کمرشل ہونے کو روکا جائے اور اگر کرکٹ کو مالی فائدے سے زیادہ قومی ساکھ کے نکتہ¿ نظر سے کھیلا جائے تو اِسے کھیلنے اور دیکھنے کی ہیت و نوعیت بدل جاتی ہے۔ کیا ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ میں حکومتی مداخلت ختم ہو گی اور کیا پاکستان میں کرکٹ کے فیصلہ سازوں کی نظریں ویسٹ انڈیز کے انجام پر ٹکی ہوئی ہیں؟