ایک دانشمندانہ بیان 

گورنر خیبرپختونخوا کا یہ بیان بڑا دانشمندانہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو ایک ہو کر چین کے وژن سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ بزنس کمیونٹی کو سی پیک سے زیادہ سے زیادہ فائدے اٹھانا ہوگا۔ وہ کوالٹی پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں کیونکہ ایک شخص کی غیر معیاری پراڈکس سے پورے ملک کا نام بدنام ہوتا ہے۔ گورنر خیبرپختونخوا کا مندرجہ بالا مشورے پر عمل درآمد اس لئے ضروری ہے کہ چین میں جو قیادت 1949 سے برسر اقتدار ہے اس نے ایسی معاشی پالیسیاں اختیار کی ہیں کہ جن سے چین کی ایک بڑی آبادی جو 1980 تک غربت کی لکیر سے نیچے رہتی تھی آج مالی طور پر آسودہ حال ہو گئی ہے سوال یہ ہے کہ آخرہمارے ارباب بست و کشاد کیوں چینی قیادت کے وژن سے فائدہ اٹھا کر اس قسم کی معاشی پالیسیوں کو وطن عزیز میں نافذ نہیں کر سکتے جو چین نے اپنے ہاں لاگو کی ہیں اور جن کے ثمرات سے ایک عام چینی آج فائدہ اٹھا رہا ہے۔2 نشستوں سے زیادہ الیکشن لڑنے پر پابندی کا بل منظور کر کے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے ایک صائب قدم اٹھایا ہے کیونکہ متعدد نشستوں پر امیدوار کا کھڑا ہونا قومی وسائل کاضیاع اور عوام کے استحصال کے مترادف تھا۔قومی ایئرلائن کو مزید بھرتیوں کی اجازت تو مل گئی ہے پر اس ضمن میں میرٹ کا خیال رکھنا بڑاضروری ہے۔ اگر تو پی آئی اے نے اپنی نشاة ثانیہ کرنی ہے تو اسے ایک کمرشل ادارے کی طرح کام کرنا ہوگا اور اپنے عملے کی بھرتی میں خالصتاً میرٹ اور اہلیت کو مد نظر رکھنا ہوگا۔جس اربن فلڈنگ کے خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ اس کی پہلی جھلک اگلے روز لاہور میں نظر آ چکی ہے جہاں بارش کا 30 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا،اور 16 گھنٹوں کی مسلسل بارش سے بارہ افراد جان بحق ہو گئے ہیں۔ اب جو خدشہ ہمارے سر پر منڈلا رہاہے وہ یہ ہے کہ اگر اس ملک میں موجود 7000 گلیشئر گرمی کی حدت سے پگھل گئے اور انہوں نے سیلابی شکل اختیار کر لی تو اس سے جو ممکنہ تباہی ہو گی اس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔اب تذکرہ کچھ کھیلوں کی دنیا کا ہوجائے جہاں چند کھیلوں میں پہلے پاکستان دنیا پر راج کر رہا تھا آج وہی کھیل روبہ زوال ہیں۔1948 ءکے ورلڈ اولمپکس لندن میں منعقد ہوئے تھے۔ نیا نیا پاکستان بنا تھا۔ ان دنوں ہاکی بھی عالمی سطح پر اور یاپھر ایشیائی اولمپکس میں کھیلی جاتی ۔اولمپکس ہر چار سال بعد ہوا کرتے تھے۔ 1948 ءکے لندن ورلڈ اولمپکس میں پاکستان کی ہاکی ٹیم گو کہ وکٹری سٹینڈ تک نہ پہنچ پائی تھی پر اس نے چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی۔ چار سال بعد ہیلسنکی کے مقام پر 1952 ءمیں جو ورلڈ اولمپکس ہوئے ان میں پاکستانی ہاکی ٹیم نے کانسی کا تمغہ جیت کر تیسری پوزیشن حاصل کی ۔پھر اس کے بعد 1956 ءمیں آسٹریلیا میں ہونے والے ورلڈ اولمپکس میں پاکستان نے چاندی کا تمغہ حاصل کر کے دوسری پوزیشن حاصل کی ۔اس کے چار سال بعد روم میں 1960 ءمیں جو ورلڈ اولمپکس ہوئے اس میں پاکستان سونے کا تمغہ جیت کر دنیاے ہاکی کا چمپئن بن گیا اور یہ ٹائٹل 1990 کی دہائی تک بغیر شرکت غیرے پاکستان کے پاس رہا۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اس دوران ہر چار سال بعد ایشیائی اولمپکس بھی ہوتے رہے اور وہ بھی پاکستان کی ہاکی ٹیم ہی جیتتی رہی۔ اگر ہم ان ھاکی کے کھلاڑیوں کے نام نہ لیں کہ جن کا پاکستان کی ہاکی ٹیم کی جیت میں ہمیشہ کلیدی کردار رہا ہے تو یہ زیادتی ہو گی۔ عبدالحمید عرف حمیدی، وحید ذکا، نصیر بندہ ،مطیع اللہ، سلیم اللہ، انوار احمد خان، حبیب کڈی، عاطف، غلام رسول، خورشید عالم ،منظور جونیئر، شہناز شیخ، اسد ملک حیات، رشید جونیئر اور فضل رحمان ہاکی کے وہ کھلاڑی تھے کہ ہاکی میں جن کا ثانی کوئی نہ تھا۔1990 ءکی دہائی کے وسط سے جیت کا یہ سلسلہ ایسا ٹوٹا ہے کہ پھر آج تک بحال نہیںہو سکا ہے۔ ہاکی کی طرح کرکٹ میں بھی پاکستان نے کافی نام کمایا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد عبدالحفیظ کاردار کی قیادت میں جس پاکستانی کرکٹ ٹیم کا انتخاب کیا گیا اس نے دنیاے کرکٹ کی ہر ٹیم کو شکست دی ۔ہم بھارت سے جیتے، ویسٹ انڈیز سے بھی ،آسٹریلیا سے بھی، انگلستان سے بھی ،سری لنکا سے بھی اور جنوبی افریقہ سے بھی۔ جہاں تک ون ڈے کرکٹ کا تعلق ہے اس میں بھی ہماری ٹیم کی کارکردگی بہت اچھی رہی ہے۔1992 میں ہم ورلڈ چمپئن بھی بن گئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد دنیائے کرکٹ میں قدم جمانے اور پاکستان کی پہچان کرانے میں جن کرکٹ کے کھلاڑیوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ ان کے نام یہ ہیں حفیظ کاردار، فضل محمود ،حنیف محمد، وقار حسن، امتیاز احمد، مقصود احمد ،خان محمد، محمود حسین، شجاع الدین اورذولفقار احمد۔اسی طرح سکواش کے کھیل میں ایک لمبے عرصے تک پاکستان کے ہاشم خان، اعظم خان ،روشن خان، محب اللہ، جہانگیر خان ،جان شیر خان اور قمر زمان بے تاج بادشاہ رہے۔ اسی دور میں 1958 ءکے ایشیائی اولمپکس جو ٹوکیو میں منعقدہوئے، پاکستان کے عبدالخالق نے 100 میٹر کی دوڑ میں سونے کا تمغہ جیتا ۔اب تو ایک عرصہ ہو گیا ہے کہ ایتھلیٹکس میں بھی ہماری کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔