مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کا دائرہ کار

اقوام متحدہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس ٹیکنالوجی کے دائرہ کار کے تعین کے لئے ایک خاکہ تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ مستقبل کے ان خدشات کو دور کرنے میں مدد مل سکے جو اس جدید ٹیکنالوجی کے غلبہ حاصل کرنے سے متعلق پائے جاتے ہیں۔بہتری کے لئے مصنوعی ذہانت کی عالمی کانفرنس اے آئی فار گڈ گلوبل سمٹ جنیوا میں منعقد ہو رہی ہے ۔ جس میں دنیا بھر سے اس شعبے کی کمپنیوں مثلا مائیکروسافٹ اور ایمازان اور یونیورسٹیوں کے تقریبا ً300 ماہرین حصہ لے رہے ہیں۔اقوام متحدہ کا انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کا ادارہ اس سربراہ اجلاس کا اہتمام کر رہا ہے۔ ادارے کی سربراہ ڈورین بوگڈن مارٹن کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔انہوں نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا بھر کی نمائندگی کرنے والی آوازوں کے لیے ایک حقیقی موقع ہے کہ وہ اس عالمی پلیٹ فارم پر انتظامی اور نظم و ضبط کے مسائل کو حل کرنے کیلئے آگے آئیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ نہ کرنا اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ انسانیت اس پر انحصار کرتی ہے ، اس لئے ہمیں اسے استعمال میں لانے اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ ایک ذمہ دارانہ مستقبل کو یقینی بنانے کے لئے کام کرنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ یہ سربراہ کانفرنس مصنوعی ذہانت کے محفوظ استعمال کے لئے ممکنہ طریقہ کار اور گائیڈ لائنز کا جائزہ لے گی۔اس کانفرنس کے شرکا میں ایمازون کے ٹیکنالوجی کے سربراہ ویرنرواگلز، گوگل کے ڈیپ مائنڈ کی چیف آپریٹنگ آفیسر لیلا ابراہیم اور سپین کے فٹ بال کے سابق کیپٹن اکر کاسیلس بھی شامل ہیں جو طبی شعبے میں آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کے استعمال کے بہت بڑے حامی ہیں۔اس کے ساتھ انسان نما روبوٹ تیار کرنے والی کئی ممتاز کمپنیوں کو بھی اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا ہے اور وہ اس میں اپنے روبوٹ بھی ساتھ لا رہے ہیں۔آرٹیفیشل انٹیلی جینس پر کام کرنے والے ایک ماہر گیری مارکس کہتے ہیں کہ ہم ایک نئی طاقت ور ٹیکنالوجی کے باعث اچانک رونما ہونے والے طوفان کی زد میں ہیں۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ یہ ٹیکنالوجی بہت زیادہ ذہین ہے۔ مگر یہ ہماری زندگی میں اتنی تیزی سے داخل ہو رہی ہے جس کے لئے ہم تیار نہیں ہیں۔اے آئی پر کام کرنے والی ایپ، چیٹ جی پی ٹی نے گزشتہ سال اپنے لانچ کے بعد سے دنیا بھر میں سنسنی پھیلا دی ہے کیونکہ یہ ایپ تخلیقی صلاحیت رکھتی ہے، شاعری کر سکتی ہے، بات چیت کر سکتی ہے۔ مختلف موضوعات پر اپنا نقطہ نظر بیان کر سکتی ہے۔اس کی یہ صلاحیت کسی حد تک انسان سے ملتی جلتی ہے جس سے یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ کہیں وہ ترقی پا کر انسان پر غالب ہی نہ آ جائے۔ امریکہ میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ اس بارے میں ضابطہ کار بنانے کی ضرورت ہے۔مائیکروسافٹ کے اے آئی فار گڈ لیب کے چیف ڈیٹا سائنس دان، جوآن لاویسٹا فیرس کہتے ہیں کہ ہم آرٹیفیشل انٹیلی جینس کو اس دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔مثال کے طور پر طبی شعبے میں جہاں لگ بھگ 40 کروڑ افراد ذیابیطس میں مبتلا ہیں اور ان کے لئے طبی سہولتیں بہت محدود ہیں جس سے ان میں سے کئی ایک کے اندھا ہونے کے خطرات موجود ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی وہاں ہماری مدد کر سکتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ہم نے آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے ایسے ماڈل بنائے ہیں جو ایک ماہر امراض چشم کی طرح کام کرتے ہیں اور انہیں سمارٹ فون کے ذریعے استعمال کیا جا سکتا ہے۔"