اوراق گلگت وچترال 

تحقیق بہت مشکل اور پیچیدہ کام ہے اس کام میں بنیادی اور ثانوی ماخذات کی ورق گردانی کے ساتھ گا¶ں گا¶ں جاکر مقامی روایت اور زبانی علم کے منابع کو بھی کھنگالنا پڑتاہے، پیشہ تدریس سے وابستہ مصنف ،شاہ حسین گہتوی زوند نے بے حد خوش اسلوبی کے ساتھ تحقیق کے مراحل طے کرکے”اوراق گلگت وچترال“ کے نام سے تاریخی دستاویز شائع کی ہے موصوف کی ڈیوٹی ایک دور افتادہ اور پسماندہ پہاڑی گا¶ں کے سکول میں ہے اس ڈیوٹی سے فائدہ اٹھاکر انہوں نے زبانی روایات کو جمع کیا اور اپنی حق حلال کی کمائی کو لائبریر یوں اور کتب خانوں کی خاک چھاننے پر لگایا ۔ پنڈت کلہان کی راج ترنگنی اور مارکو پولو کے سفر نامے سے لیکر پروفیسر ہولز وارتھ کے جائزہ تاریخ اور ڈاکٹر پیٹرپارکس کے تحقیقی مقالہ جات تک 100سے زیادہ بنیادی اور ثانوی ماخذات کا مطالعہ کرکے حوالہ جات کی ترتیب مکمل کی۔ مقامی مورخین مرزا محمد غفران، محمددین فوق، پروفیسر اسرارالدین، عبدالحمید خاور، ڈاکٹر سید امجد حسین،راجہ حسین علی خان، فدا علی ایثار، ڈاکٹر عزیزاللہ نجیب، شہزادہ تنویر الملک، سید محمد شاہ الحسینی، سید حسین شاہ کاظمی کے بر محل حوالوں سے اپنی تحقیق کو سند بخشی۔ یوں ان کی تصنیف، گلگت بلتستان چترال، کشمیر،چینی ترکستان، روسی ترکستان اور بدخشان کے قدیم روابط وتعلقات کی حسین وجمیل دستاویز بن گئی۔ اس تحقیقی کا وش کی مدد سے کئی تاریخی مغالطے دور ہوگئے اور مستقبل کے مورخ کو نیا مواد مل گیا مثلا اب تک شاہ محمود رئیس کے دوسرے حملہ چترال کی تاریخ کا درست تعین نہیں ہو پایا تھا 1630 اور1660عیسوی کے درمیان قیاس کیا جاتا تھا ۔شاہ حسین گہتوی زوند کی کتاب میں چترال بالا کے تاریخی مقام کوشٹ میں نوغورموڑی کا پرانا روایتی مکا ن ہمیں ملتاہے جس کے چوبی ستون پر 1122ہجری 1711ء عیسوی کی تاریخ کندہ ہے اور شاہ محمودرئیس کا نام آیا ہے یہ بنیادی ماخذ ہے جسے مصنف نے ڈھونڈ نکالا اس نوعیت کے کئی ابہام اس کتاب کی روشنی میں مصدقہ شواہد کی روشنی میں دور کئے جاسکتے ہیں کتاب کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں مصنف نے گلگت اور چترال کے قدیم قلعوں کےلئے ایک باب مخصوص کیاہے ۔اس باب میں بھولے بسرے ناموں سے موسو م قلعوں کا ذکر بھی ہے مثلا سندارغ کوشٹ چترال میں قلعہ عالم کھن، وریجون کے مقام پر قلعہ نغورزوم، زیزدی کے مقام پر قلعہ قوراسن، رائین کے مقام پر قلعہ موڑیوم، بروک لاسپور میں قلعہ دھداڑ،یاسین میں قلعہ سوما لکائی کھن یا چمرکھن، ہنزہ میں قلعہ لیو کوٹ، گلگت میں قلعہ یا کش پور کھن، ایسے نام ہیں جو عموماً بھلادئیے گئے ہیں یا قلعہ کھر پچو، قلعہ مڈوری، قلعہ ڈورکھن، قلعہ مستوج، قلعہ دراسن، قلعہ شیر جولی، قلعہ دروشپ، التت، بلتیت وغیرہ مشہور قلعوں کے ناموں کے مقابلے میں ماند پڑ گئے ہیں۔ اسی طرح قبیلوں کے نام اور بعض کے شجر نسب بھی پہلی بار منظر عام پر لائے گئے ہیں۔ مثلاً بہمن کھوستانی ساتویں صدی عیسوی کا مقامی حکمران سردار گزرا ہے ان کے قلعوں کے آثار موجود ہیں مگر ان کی اولاد کا شجرہ اوراتہ پتہ کبھی اشاعت پزیر نہیں ہوا تھا۔ شاہ حسین گہتوی زوند نے ان کی اولاد کا مختصر شجرہ شائع کیا ہے ایک اور نمایاں بات یہ ہے کہ گلگت اور چترال کے بعض دیہات اور مقامات کے نام ان کے معنی اور ماخذ کے ساتھ دئیے گئے ہیں۔ مثلاً چمرکھن، چمورکھن، بھرگو، بھگروٹ وغیرہ کے ناموں کے سنسکرت، پنجابی، بروشسکی، بلتی اور دیگر زبانوں میں سرداروں اور مقامات کے ناموں سے مواز نہ کیا ہے اور یہ تحقیق کا ایک اچھوتا باب ثابت ہواہے، تاریخ کے بارے میں ایک کہاوت عام ہے کہ تاریخ کی مثال ہاتھی کی ہے اور مورخ اندھا ہوتاہے وہ ہاتھی کو چھوکر بتاتاہے کہ اس کی صورت کیسی ہے چنانچہ کوئی سونڈ کو،کوئی کان کو، کوئی دم کو اور کوئی ٹانگ کو پورہ ہاتھی سمجھتا ہے۔ علاقائی تاریخ پر سب سے جامع تبصرہ عبدالخالق تاج نے کیا ہے ان کا کہناہے کہ علاقائی تاریخ کے بارے میں وثوق سے ایک ہی بات کہی جاسکتی ہے کہ وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتاتاہم ”اوراق گلگت وچترال“ ایسی کتاب ہے جو تاریخ کے طالب علموں کی درست سمت میں رہنمائی کرتی ہے۔