دنیا میں اب رواج چل نکلا ہے کہ ہر چیز کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔یہ دن ظاہر ہے کہ ایک ہی روز کا کھیل ہوتا ہے۔شام تک ہر قسم کے منائے جانے والے دن کا جادو جو سر چڑھ کر بول رہا ہوتا ہے آخر کار اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔مگر ہمارے ہاں کچھ دن تو کہہ کر آتے ہیں اور خوب دھوم دھڑکے سے منائے جاتے ہیں ۔کچھ دن یونہی سر پر آن رہتے ہیں جن کو منانے کے لئے اُسی دن بھاگم دوڑی کی جاتی ہے ۔مگر کچھ دن ایسے بھی ہوتے ہیں جو سر پر آن پہنچتے ہیں اور ہم کو احساس بھی نہیں ہو پاتا اور ہم منا بھی لیتے ہیں۔ بلکہ ایک دن ہی نہیں تین تین دن یہ شغل میلہ جاری رہتا ہے ۔اب عید کے دنوں ہی کو لیں اس کی آڑ میں تین دن تو ہم نے یوم ہائے سسرال کے طور پر منا لئے۔عید کے تین دنوں میں ہر دن کو یومِ سسرال کے طور پر منایا گیا۔مگر منانے والوں کو بھی کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ ہم کر کیا رہے ہیں۔عیدِ قرباں کے پہلے دن جوں صبح نمازِ عید کے بعد ماں باپ کو عید مبارک کی تو ذرا دیر بعد بہو¶ں اور بیٹوں کی کھسر پھسر ہونے لگی ۔ڈھیلے ڈھالے آہستہ خرام بیٹے جان سامنے آئے ۔کہنے لگے ابا ہم ذرا بیگم کے میکے تک جاتے ہیں۔ وہ لوگ آج وہاں قربانی کریںگے ہمیں بلایا ہے ‘ موٹر سائیکل سٹارٹ ہو تا ہے یا گاڑی کی سیلف کی آواز آتی ہے ۔وہاں سے دادی ماں پکارتی ہے ارے بچوں کو تو چھوڑ جاتے ۔ بہو خود توخاموش ہے مگر بیٹے صاحب آگے آگے ہو کر بولتے ہیں ۔ارے ابّا وہ تو ان بچو ں کے لئے قربانی کر رہے ہیں ۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے جا¶ یار جا¶۔یہ کہہ کر دادی ماں کچن میں ابّا کے لئے قہوہ بنانے چلی جاتی ہیں ۔یہاں بھی مہمان آ رہے ہیں ۔ مگر کوئی بہو گھر میں موجود نہیں ہے ۔بیٹیاں ہیں اور ان کے بچے ہیں شور شرابا جیسے ساتھ لے کر آئے ہوں ۔آتے ہی بیٹی پوچھا ارے بڑی بہو کہا ں ہے ۔ دادی ماں کہتی ہے اے ذرا قربانی کر لیں تو انھیں قدموں واپس آئے گی بچوں کے لئے گئی ہے۔بیٹی پوچھتی ہے اور وہ دوسری کہاں ہے ۔ ارے وہ بھی تو قربانی ہی کے لئے اپنے بچوں کو لے گئی ہے ورنہ تو نہیں جارہی تھی ۔بچوں نے ہفتہ پہلے ہی سے اودھم مچایا ہوا تھا کہ نانی امی کے گھر قربانی ہے ہم وہاں جائیں گے۔بیٹی فرماتی ہے انہیں ہمارے آنے کا احساس نہیں ۔چلو اچھا ہے گھر میں کوئی نہیں تو ۔ابّا کیسے ہیں آپ ۔طبیعت کیسی ہے اب ۔ بلڈ پریشر تو کنٹرول ہے ۔چیک کروایا تھا ۔ گوشت ذرا احتیاط سے کھانا ۔ابّافرماتے ہیں ہاں بیٹا بس قسمت کے سہارے جی رہے ہیں۔ ہائے ابا کلیجی تو آپ کے کھانے کی چیز نہیں ۔ارے نہیں یار چھوڑوعید ہے پھر کون کب کب کھاتا ہے ۔کھالینے دو صحت اچھی ہو لینے دو۔ارے بچوں جا¶ گلی میں دیکھو ابھی بیل ذبح کریں گے ۔جا ¶ تماشا دیکھو۔بلکہ میں کہوں ان کے باپ کوان کو تحصیل گورگھٹڑی کے مین گیٹ کے باہر جو صبح دم اونٹوں کی قربانی کی جاتی ہے وہاں لے جا¶ ذرا سیر کر لیں گے ۔ارے نہیں امی وہاں بہت رش ہوتا ہے ۔بچوں کا بہت خیال کرنا پڑتا ہے ۔یاد نہیں پچھلی بار تو میں نے پپو کو موٹر سائیکل پر کھڑا کر دیا تھا ۔پھر ہڑبونگ مچی تو وہاں سے گر گیاتھا ۔پھر وہ ہمسائے نے کہا اس کو اوپر بھیج دیں اوپر عروسی سے اونٹ کے کٹنے کا حال دیکھے گا۔ جی ہاں گھر گھر کی کہانی اس عید پر الگ الگ بھی تھی اور ایک بھی تھی ۔مرکزی خیال کی وجہ سے ایک تھی اور کرداروں کے مکالموں اور کرداروں کی تعداد کے لحاظ سے بہت نہیں تو تھوڑا بہت فرق تھا۔مگر زیادہ ترتو ایسا ہی ہوا ۔ یومِ سسرال تھا ۔بیاہی بیٹیاںآ رہی ہیں، بہوئیں بیٹوں کو لے کر ابو کے گھر کو کشا ںکشاں روانہ ہیں۔ رکشے بہت مصروف ہیں ۔اپنی مرضی کا کرایہ لے رہے ہیںاور اس میں ذرا رعایت کے قائل نظر نہیں آتے۔اب جہاں بیٹے کے سسرال میں قربانی ہوئی وہاں سے بعد دوپہرفون آ گیا کہ قصاب کا انتظار کر رہے ہیںابّا۔آئے تو بس گھنٹہ بھر کا کام ہے‘واپس لوٹ آئینگے‘حالانکہ قصاب کو گئے ہوئے گھنٹہ توہو چکا ہے ۔وہاں کا حال کیا ہے ۔وہاں تو اوپن ایئر میںبار بار بی کیو بار بار منعقد ہو رہاہے۔