پطرس بخاری اور زیڈ اے بخاری بھائی بھائی تھے دونوں بہت پڑھے لکھے تھے اور ادبی ذوق رکھتے تھے دونوں نہایت ہی اچھے براڈکاسٹر بھی تھے اور ریڈیو کے ساتھ ایک لمبے عرصے تک منسلک بھی رہے‘ پطرس بخاری نے معلمکی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی تھیں اور بطور ایک سفارتکار کے بھی ان کی خدمات کی ایک دنیا معترف ہے‘ ان دونوں بھائیوں کا اردو اور فارسی زبانوں پر کافی عبور تھا اور پطرس بخاری تو بہت اچھی انگریزی بھی لکھا کرتے تھے۔ ایک دن ایک مہمان ان کے گھر ان سے ملنے آئے‘اب چونکہ زیڈ اے بخاری چھوٹے بھائی تھے انہوں نے بطور میزبان اس مہمان کی خاطر تواضح میں کافی دوڑ دھوپ کی اور اپنے ہاتھوں سے ان کے طعام کا بندوبست بھی کیا‘ جب کہ پطرس بخاری آرام سے مہمان کے ساتھ صوفے پر بیٹھے گپ شپ لگاتے رہے‘جس پر اس مہمان کی رگ ظرافت پھڑکی اور اس نے زید اے بخاری سے کہا بھائی یہ تو وہی بات ہو گئی نا کہ سگ باش برادر خورد مباش یہ سن کر زیڈ اے بخاری نے مہمان سے کہا کہ اب یہ محاورہ کچھ اس طرح بدل گیا ہے کہ سگ باش برادر سگ مباش.... انگریزی زبان کے معروف لغت نویس اور بذلہ سنج سیمیول جانسن کو جب ایک صاحب نے اپنی کتاب کا مسودہ دیباچہ لکھنے کیلئے بھجوایا تو جانسن نے انہیں لکھا آپکی کتاب اچھی طبع زاد ہ ہے لیکن جو حصہ اچھا ہے وہ طبع زاد نہیں ہے طبع زاد وہ تحریر ہوتی ہے جو ترجمہ یا تدوین نہ ہو بلکہ خود سے لکھی ہوئی ہو‘ اس طرح جانسن نے اس کے ادبی سرقہ پر طنز کیا تھا ایک مرتبہ جوش ملیح آباد ی سڑک کے کنارے کھڑے ہوئے تھے کہ انکے ایک شاگرد کا گزر ہوا وہ کار میں تھا اس نے سوچا کہ شاید جوش صاحب کسی ٹرانسپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں اس نے جوش صاحب سے کہا آئیے آپ کو چھوڑ آؤں جوش بولے‘ میاں کبوتر چھوڑا جاتا ہے‘ داشتہ چھوڑی جاتی ہے تم مجھے پہنچا ؤ‘سر ونسٹن چرچل کا کہنا تھا کہ انہوں نے انگریزی لکھنا ایڈورڈ گبن کی مشہور زمانہ کتاب decline and fall of Roman Empire پڑھ کر سیکھی ہے یہ اس چرچل کا کہنا تھا کہ جن کی انگریزی زبان میں دوسری جنگ عظیم پر لکھی گئی کتاب پر انہیں لٹریچر کا نوبل ایوارڈ دیا گیا تھا‘ دنیا کا سب سے پرانا اخبار جو آ سٹڑیا سے شائع ہوتا تھا320سال کے بعد بند ہو گیا‘ یہ بات تو طے ہے کہ پرنٹ میڈیا نے دنیا کے ہر ملک میں عوام کا سیاسی شعور بیدار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔کہنے کو تو مسلمان ممالک کا ادارہ او آئی سی یعنی آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز موجود تو ہے مگراس نے آج تک متحد ہو کر عالم اسلام کے دشمنوں کے خلاف کسی قسم کا کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا‘فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیل کے مظالم دیکھ لیجئے‘ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی زیادتیوں کے ایک لمبے سلسلے کا جائزہ لے لیجئے‘ آج تک صرف زبانی جمع خرچی کے علاوہ اس نے کچھ نہیں کیا‘ اگر سیاسی معاشی اور عسکری طور پر اس تنظیم کے ممالک یک جان دو قالب ہو جائیں تو یہ ادارہ اتنا قوی بن سکتا ہے کہ دنیا کی تمام سپر پاورز اس کی مشاورت کے بغیر کوئی بھی قدم نہ اٹھا سکیں گی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے تئیں 1974 ء میں لاہور میں تمام اسلامی ممالک کے سر براہان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے اسلامی ممالک کا اتحاد بنانے کی ایک کوشش ضرور کی تھی اور وہ اپنے پروگرام کو عملی جامہ نہ پہنا سکے آج یہ عالم ہے کہ OIC کے ممالک ہر معاملے میں سپر پاورز کی ڈکٹیشن کے مطابق قدم اٹھاتے ہیں ان کے اکثر سربراہان اپنے اپنے ذاتی مفادات کے اسیر ہیں کہ ان کو اپنے ملک اورقوم سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فوجداری اور ریونیو مقدمات
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ