تباہ کن موسم: دلدلی شہر

خبر یہ ہے کہ …… ”لاہور میں موسلادھار بارشوں سے تیس سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ کم از کم سات افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں جبکہ شہر کے کئی حصے دلدل میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ محکمہئ موسمیات کے مطابق ”لاہور میں 291 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوئی جبکہ ایک درجن سے زائد ایسے علاقے بھی تھے جہاں 200ملی میٹر سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی اور یہی وجہ تھی کہ شہر مفلوج ہو کر رہ گیا اور اطلاعات کے مطابق بارش کے بارہ گھنٹے گزرنے کے بعد بھی معمولات ِزندگی شدید متاثر ہیں! افسوس کی بات یہ ہے کہ جب پاکستان میں موسلا دھار بارشوں اور بڑے شہروں کے متاثر ہونے کی بات آتی ہے تو نکاسیئ آب کی خراب صورتحال پر تنقید کی جاتی ہے لیکن ہر تنقید کے بعد مزید تنقید کا موقع باقی رہتا ہے کیونکہ شہری ترقی اور سہولیات کا معیار انتہائی ناقص ہے۔ نجانے ہمارے فیصلہ سازوں کو یہ بات کب سمجھ آئے گی کہ ’موسمیاتی تبدیلیاں‘ وقتی نہیں بلکہ اِن کی شرح اور اثرات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور پاکستان دنیا کے اُن سرفہرست 10 ممالک میں شامل ہے‘ جو موسمیاتی تبدیلیوں سے انتہائی متاثر ہیں! زیادہ پرانی بات نہیں گزشتہ سال سندھ و بلوچستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب کو ابھی ایک سال سے بھی کم عرصہ گزرا ہے‘ جو پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا اور  اس سے 1700 ہلاکتیں اور 2 لاکھ سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا جبکہ اِس سال بارش پھر سے غیرمعمولی برس رہی ہے اور مون سون کے ’تباہ کن موسم‘ کا گویا آغاز ہو چکا ہے!یہ حقیقت اگرچہ واضح ہے لیکن واضح ہو جانا چاہئے کہ آب و ہوا کی تبدیلی اور شدید موسمی واقعات  افسانہ نہیں اس حقیقت کو جس قدر جلد تسلیم کر لیا جائے اُتنا ہی بہتر ہوگا۔ دیکھنا چاہئے کہ موسموں کے ساتھ کیا کچھ کتنی تیزی سے بدل رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان کے پاس ”قومی موسمیاتی تبدیلی“ سے متعلق باقاعدہ پالیسی (لائحہ عمل) موجود ہے لیکن اِس لائحہ عمل  پر عمل درآمد کس نے کرنا ہے اور عوام کس سے مطالبہ کریں کہ موسموں کے مقابلے میں اُن کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے؟ ممکنہ طور پر قومی موسمیاتی پالیسی پر موجودہ ہنگامی صورتحال میں نظرثانی کی ضرورت ہے کیونکہ ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں انتہائی موسمیاتی تبدیلی کے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں۔ اس طرح کے ہنگامی (غیرمعمولی) حالات سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لئے قومی سطح پر امدادی صلاحیتوں کو ’اپ گریڈ‘ کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ہمارے چھوٹے بڑے شہر موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں! زیادہ بارشیں‘ موسلادھار بارشیں اور غیرمتوقع بارشوں کے تناظر میں‘ شہری بنیادی ڈھانچے‘ نقل و حمل کے نظام اور صحت کی خدمات کو بہتر بنانا ضروری ہو گیا ہے اور یہ ضرورت بنیادی سہولیات اور معیار زندگی کی بہتری کے لئے لازم ہو چکی ہے۔ پاکستان کو ایک وسیع البنیاد ’نکاسیئ آب کے نظام‘ کی ضرورت ہے جو طویل عرصے تک ہونے والی بارشوں کو برداشت اور سنبھالنے کے قابل ہو تاکہ شہروں میں آئے روز ہونے والے ایسے واقعات کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے۔ موسمیاتی ہنگامی حالات میں علاج معالجے کی گشتی سہولیات کو فعال رکھنا سب سے بڑی مشکل اور ضرورت ہوتی ہے‘ اِسی طرح ملبہ ہٹانے کے لئے بھاری مشینری کی دستیابی اور ہنگامی خدمات کے لئے تربیت یافتہ عملے میں سرمایہ کاری سے شہری سہولیات کو ہنگامی حالات میں بھی کارآمد رکھا جاسکتا ہے جس کی موجودہ حالت ناقابل بیان ہے اور عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ موسمیاتی ہنگامی حالات میں عوام حالات کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں! شہری علاقوں سے نکاسیئ آب کے نالے نالیوں پر تعمیر تجاوزات کا خاتمہ ایک انتہائی اہم ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں پشاور کے شاہی کٹھہ پر قائم تجاوزات اور شاہی کٹھے کو ڈھانپ کر بنائے جانے والے راستوں کو واگزار کرانا ازحد ضروری ہے۔ پشاور کی تعمیر و ترقی کی وجہ سے نکاسیئ آب کا نظام خاطرخواہ فعال نہیں جس کی صفائی اور توسیع وقت کی ضرورت ہے۔ چار اور پانچ جولائی دوہزار تیئس کے روز لاہور شہر میں بارش کے بعد کی صورتحال سے سبق سیکھتے ہوئے پشاور کو ’دلدلی شہر‘ ہونے سے بچانے کے لئے ابھی سے اقدامات و انتظامات ہونے چاہئیں۔