شہنائی کی آواز

 ہم نے صرف سنا ہی ہے دیکھا نہیں ہے مگر جو سنا اس پر اعتبار ہے کہ ایسا ہے‘ہاں مگر ا س میں تھو ڑا سا کٹ لگانا ہے کہ وہ موسیقی جو آج کل چھوٹی یا بڑی سکرین پر پیش کی جاتی ہے وہ سزا ہے بلکہ ساغر صدیقی کے ایک شعر کا معاملہ بھی یہاں لگا کھاتا ہے کہ ایسی سزا ہے  جس کے جرم کے بارے میں معلوم نہیں کہ آیا ہم نے کیا بھی ہے کہ نہیں‘بیکار میں سزائیں ہیں یا منیر نیازی کا مصرع یاد آیا کہ ”کاٹتا ہوں عمر بھر میں نے جو بویا نہیں“  بلکہ جو اس قسم کی موسیقی سن رہا ہو اور محفل میں موجود ہو تو وہ مارے حیرانی کے بُت بن جائے گا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔اسی غزل کا شعر ہے جو اس وقت پورا فٹ آئے گا کہ ”جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر۔ غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں“اس وقت پتھر بن جانے کے سوا بندہ کر کیا سکتا ہے۔ ساغر کاوہ شعر یہ ہے کہ ”زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے۔جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں“وہ کون سا جرم ہے نہ تو مجرم کو معلوم ہے اور نہ ہی فیصلہ کرنے والے کو مگر سزا تو از خود جو یہ موسیقی سنے گا بھگتے گا۔ اب بجلی کے دو بیس کے سوئچ میں انگلیاں دے دو تو اس کے بعد جسم پر جو لرزہ طاری ہو گا تو دیکھنے والا اس کو جدید قسم کا ڈانس ہی سمجھے گا جو کسی ڈرم بیٹ پر جسم تھرکے گا مگر اصل میں تو وہ ”چلے بھی آؤ کہ دنیا سے جا رہاہے کوئی“ والی بات ہوگی مگر جب کوئی  ریسکیو کرنے کو پہنچے گا تو وہ شعر اس کو شاید ہی یاد آئے جو نواب مرزا داغ نے ہمیشہ کے لئے اردو ادب کی ڈھال پر داغ دیا ہے ”نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی۔بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے“۔اس وقت کہ اس کی مدد کی جائے وہ تو کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا۔ قدردان مہربان میں نے بات موسیقی سے شروع کی او رجا کہاں پہنچی۔اصل میں جو اس وقت کی جدید محفلو ں کی موسیقی چل رہی ہے۔میں اس کی بات کررہا ہوں کہ وہ تو کسی کو اگر سزا دی جائے تو اس کو یہ موسیقی سنا دی جائے۔ پرانے بلیک اینڈ وائٹ گانے دیکھیں یا چلو آج کے گانے بھی دیکھ لیں۔مگر جن گانوں میں شاعری بھرپور ہو اور وزن کے مطابق ہو ان اشعار میں کوئی بات بھی ہو صرف جسم کے تھرکنے سے موسیقیاں نہیں بن جاتیں بلکہ لفظوں کے تول مول اور ان کے رقص سے بھی موسیقی اس لئے بنے گی کہ اس میں شاعری باکمال ہو۔ٹوٹی پھوٹی شاعری بے وزن اشعار ہوں گے تو اس پر بھلا کیا موسیقی ترتیب پائے گی۔ صرف جسم کی جنبش اور حرکت سے تو موسیقی کا تال میل نہیں بن پاتا اس کے لئے موسیقار کو اور بھی پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ ویسے ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا شاعری نہ ہو گی الفاظ نہ ہوں گے تو موسیقی ہوگی۔ عرضِ خدمت ہے کہ الفاظ کا ہونا شرط نہیں مگر موسیقی کا ردھم برابر ہو۔صحیح معنوں میں گائیک صرف ایک لائن کو لے کر گھنٹہ بھر گلے کا کمال دکھلاتے رہتے ہیں۔ مگر اس دوران میں اگر شاعری بھی ساتھ ہو اور کمال کی شاعری ہو پرانی وضع کا کلام ہو اور شاندار ہو۔ویسے کہتے ہیں کہ موسیقی کی کوئی زبان بھی نہیں ہوتی۔ اگر کوئی گلوکار کچھ گا رہا ہے اور وہ آپ کی سمجھ میں نہیں آرہا اور اکثر ایسا ہوتا بھی ہے مگر اس گانے کی موسیقی کمال کی ہوتی ہے اس پر وہ زبان نہ جاننے والے بھی جھوم جاتے ہیں۔ نصرت فتح علی خان باہر کے انگریز ملکوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہوتے توسامعین اگر فرانسیسی بھی ہوں تو وہ بھی جھوم جھوم جاتے۔ ان سے اگر آپ پوچھیں کہ شاعر کیا کہہ رہا ہے تو اس کو اس بابت کچھ بھی احوال معلوم نہ ہوگا۔ بس صرف ساز و آواز کی باہم ملاوٹ سے جو فضا ترتیب پا رہی ہوتی ہے وہ سننے والے کو مدہوش کئے دیتی ہے۔سانپ کے آگے بین بجائیں تو بین کی آواز کی لہریں زمین پر سے ہوکر سانپ کے جسم تک پہنچ کر ایک ترتیب بکھیر کر سانپ کی حرکات اور جنبش کو سمیٹ لیتی ہیں۔یہاں لگتا ہے کہ سانپ میں کچھ نہ کچھ سمجھ بوجھ ہے۔کیونکہ گائے کے آگے بین بجانے سے یا اونٹ کے آگے رباب بجانے سے کوئی فائدہ اب تک حاصل نہ ہو سکا۔ حتیٰ کہ سانپ اپنا کاٹنا بھول کر الٹا بین کو دیکھتا جاتا ہے۔ایسی موسیقی ہو تو جب بندہ اس کو سن کر اپنا آپ بھلا دے اور آواز کی جانب ہمہ تن گوش ہو جائے۔اس وقت مصرع ہوگا کہ ”آپ کو پاتا نہیں جب آپ کو پاتا ہوں میں“سو کووں کے کائیں کائیں کرنے سے بہتر ہے کہ ایک بلبل ہو اور خوبصورت آوازمیں چہک رہاہواور درختوں کی اندھیری شاخوں میں میلہ کا ساسماں پیدا کردے اور درخت کے نیچے کے رہائشی اس آواز پر اس طرح کان دھریں جیسے دور کسی پہاڑ کی چوٹی پر سے شہنائی کی آواز آ رہی ہو۔