عید کے دنوں کی خبروں نے ہمیں عجیب مخمصے میں مبتلا کیا ہے۔ایک خبر یہ تھی کہ عید کے دو دنوں میں پشاور کے بڑے ہسپتالوں میں 9ہزار مریض لائے گئے جن میں سے1800مریضوں کوحد سے زیادہ گوشت کھانے سے بیماری لگی تھی دوسری خبر یہ ہے کہ عید کے دودنوں میں ہنگامی حالات سے نمٹنے والے ادارے ریسکیو 1122کو14ہزار ٹیلیفون کالیں وصول ہوئیں ان میں 5ہزار کالیں جعلی تھیں یعنی کوئی ہنگامی واقعہ نہیں ہوا تھا لوگوں نے شرارت کرکے ایمبولینس دوڑایا اور تیل ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ ادارے کی نظرمیں عوام کااعتبار بھی برباد کر دیا ایک اور خبر یہ ہے کہ ریسکیواورپولیس سٹیشنوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق عید کے دودنوں میں صوبہ خیبرپختونخواہ میں 273بے گناہ لوگ مختلف نوعیت واقعات میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے،کچھ حادثات میں مرگئے کچھ پانی میں ڈوب گئے کچھ دشمنی کی زد میں آکر گولی کا نشانہ بنے۔ جس چیزنے ہمیں مخمصے میں مبتلا کیا وہ یہ ہے کہ ایک دن کے چار اخبارات کوکسی جاپانی‘ فرانسیی‘برطانوی،جرمن یاامریکی شہری نے پڑھ لیاتو وہ خیبرپختونخوا اور اس کے دارالخلافہ پشاور کے عوام کی ذہنی کیفیت کے بارے میں کیا رائے قائم کرے گا‘کراچی ، لاہور ‘ ملتان‘راولپنڈی اور پشاور میں جوماحولیاتی آلودگی اور بدبوپھیلی اس پرحکومتی حلقے ایک دوسرے کومبارک باد دے رہے ہیں اور دعویٰ کررہے ہیں کہ صفائی کے لئے بہترین انتظامات کئے اس کے مقابلے میں عوامی حلقوں کی طرف سے ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا پر واویلا ہورہا ہے کہ میونسپل ورکرز نے کوئی انتظام نہیں کیا شہریوں کے ناک میں دم ہوگیا ہے سانس لینا محال ہوا ہے تل دھرنے کوصاف جگہ میسر نہیں ۔اب حکومت اور عوام میںسے کون سچ بول رہا ہے اور حقیقت کیا ہے یہ جاننا مشکل نہیں۔بڑی عید کوعید الاضحی اور عید قربان بھی کہتے ہیں اسے بقر عید اور بکراعید بھی کہا جاتا ہے بچوں کی زبان میں چھوٹی عید کو میٹھی عید اور بڑی عید کو نمکین عید کہتے ہیں اس عید کی بڑی عبادت اور دیگرعبادات کاثواب کسی کو یاد رہے یانہ رہے اس کاباربی کیو ‘ کڑاہی‘ تکہ‘کباب سب کویاد رہتا ہے اس کی بریانی کوہر ایک یادرکھتا ہے میونسپل ورکرز کی کارکردگی کو بھی کوئی نہیں بھولتا ایک اوربات جویاد رہتی ہے وہ شہروں کے اندر کھال جمع کرنے والوں کی آپس میں چھینا جھپٹی ہے ایک جانور ذبح ہورہا ہے توچار تنظیموں کے نمائندے کھال کے انتظار میں رہتے ہیں۔ جس تنظیم کے پاس ماہر افرادی قوت ہوتی ہے وہ کھالوں کے معاملے میں خوش قسمت ثابت ہوتے ہیں اس عید پرمجھے ہرسال یہ بات ستاتی ہے کہ قربانی کی کھال،اس کے گوشت اور اس کی الائشوں سے پیدا ہونے والی ناگوار صورت حال میں ہم اس اہم دن کے پس منظر میں ملنے والے سبق کویکسر بھول جاتے ہیں یہاں تک قربانی کے گوشت کاتہائی تہائی والا فارمولا بھی ہمیں یاد نہیں رہتا صرف ڈیپ فریزر یاد رہتا ہے ساراگوشت چھ سات مہینوں کے لئے سائنسی ایجادات کی مدد سے منجمد کرکے رکھ لیتے ہیں غربااورمساکین اور قریبی رشتہ دار قربانی میں اپنے حصے کاگوشت حاصل نہیں کرپاتے ۔یہ بھی ایک خبر ہے اور یہ بھی ایک مخمصہ ہے۔عید ایک ایسا موقع ہوتا ہے کہ جہاں پر ایثار و قربانی کا جذبہ غالب رہنا چاہئے اس حوالے سے ہم سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آس پاس موجود لوگوں کو اپنی خوشیوں میں شریک کریں کیونکہ خوشیاں تقسیم کرنے سے ہی بڑھتی ہیں۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی