پانی : فطری افادیت

ہمالیہ کے ندی نالوں سے بہنے والا پانی برصغیر کی ریاستوں کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ پاکستان نچلے سطح پر اور دریائی ملک ہونے کی وجہ سے اپنی صلاحیت اور وسائل سے بخوبی آگاہ ہے اور فطرت کی باوقار افادیت سے بھی آگاہی رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ اُنیس سو ساٹھ میں بھارت کے ساتھ ’سندھ طاس معاہدے‘ پر دستخط کئے گئے جس کے بعد سے پاکستان شروع دن سے اپنا قانونی حق حاصل کرنے کے لئے کوشش کر رہا ہے۔ عالمی ثالثی عدالت کے حالیہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بھارت کشن گنگا جیسے متنازعہ فیصلوں کے بارے میں ثالثی کرنے کا مجاز فورم ہے۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت کہ مذکورہ ثالثی عدالت کے متفقہ فیصلوں کا تمام فریقوں پر لازم اطلاق ہوگا اور اس کے خلاف اپیل بھی نہیں کی جا سکے گی تو اُمید پیدا ہوئی ہے کہ بھارت کی ہٹ دھرمی ختم ہوگی اور اِس ہٹ دھرمی کے نتیجے میں بھارت کی جانب سے پانی کے بہاو¿ کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لئے یہ کوشش قابل عمل حل ثابت ہو گی۔ یہ تنازع بھارت کی جانب سے دریائے جہلم پر 330 میگاواٹ کے کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ اور چناب پر 850 میگاواٹ کے رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ کی تعمیر سے پیدا ہوا ہے۔ پاکستان کو مذکورہ دونوں منصوبوں سے متعلق خدشات و تحفظات
 ہیں کہ اِن کی وجہ سے پاکستان کو فراہم ہونے والے پانی کی مقدار کم ہو گئی ہے جس کی وجہ سے زرخیز علاقے بنجر ہو چکے ہیں۔ اگرچہ عالمی ثالتی عدالت جو کہ اقوام متحدہ کا بین الحکومتی ادارہ ہے اِس کوئی ایسی تفصیل نہیں دی کہ پاکستان بھارت آبی تنازعے کے حوالے سے کیس کی سماعت کب ہو گی اور اِس کا فیصلہ کب تک آئے گا لیکن اس کوشش ہی کے ذریعے اور سندھ طاس معاہدے ہی کی روشنی میں اس مسئلے کو مکمل طور پر حل کیا جا سکتا ہے جس کی ذمہ داری اقوام متحدہ نے اُٹھائی ہے اور وہ اِسے پوری کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ یہ ایک خوش آئند پیش رفت اور پاکستان کی اخلاقی فتح ہے اور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان پہلے ہی آفات کا تن تنہا مقابلہ کر رہا ہے اور اِسے خوراک و پانی کی خود کفالت کی ضرورت ہے جبکہ زراعت کو ترقی دینے جیسا چیلنج پریشان کن مسئلہ بنا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں کو پانی کے شدید بحران کا سامنا
 ہے۔ یہ کمی تیزی سے قومی سلامتی کے مسئلے کی شکل اختیار کر رہی ہے جس نے دونوں ہمسایہ ممالک کو مجبور کیا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی تشریح اپنے اپنے تصوراتی نقطہ نظر سے کریں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بین الاقوامی قانون کے تحت کسی نتیجے (فیصلے) تک پہنچا جاتا ہے۔ پانی کو کبھی بھی سیاسی رنگ نہیں دیا جانا چاہئے اور وقت کی ضرورت ہے کہ تقسیم سے بالاتر سٹیک ہولڈرز موجودہ حالات کے بارے میں جامع نقطہ نظر اپنائیں اور اِس موقع پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی بجائے ایک ایسے مسئلے کو حل کریں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پانی زندگی ہے اور اس پر آنے والے دنوں میں ممالک کے درمیان تعلقات کا انحصار ہے یعنی اس وقت دیگر کئی وجوہات ہیں ممالک کے درمیان جنگوں کی ، تاہم مستقبل میں پانی کے معاملات پر بھی ممالک کے درمیان جنگیں ہو سکتی ہیں۔ یعنی یہ ایک بہت ہی اہم معاملہ ہے جسے نظر انداز ہر گز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود سندھ طاس معاہدے نے ایک ایسی بنیاد فراہم کر دی ہے کہ جس پر دونوں ممالک پانی کے مسئلے کو مد نظر رکھتے ہوئے بات چیت کرسکتے ہیں اور اس پیچیدہ مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں۔ اس لئے اس معاہدے کی جس قدر حفاظت کی جائے کم ہے اور بین الاقوامی برادری پر بھی اس ضمن میں اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔