یہ کیسی پریس کانفرنس ہے؟

 جنیوا میں گذشتہ پچھلے روز ایک اہم ترین پریس کانفرنس ہوئی ہے ۔جس میں روبوٹ موجود تھے۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی رائے دی۔بھلا مشین اور اپنی رائے دے ایسا تو ممکن نہیں۔لیکن بہر حال جو ہوا وہ سن لیں شاید ا س میں کوئی سبق پوشیدہ ہو۔یہ عجیب طرح کی پریس کانفرنس تھی۔ جن میں مرد وخواتین روبوٹ یعنی انسان نما مشینوں نے حصہ لیا ۔یہ کانفرنس باقاعدہ طور پر اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام ہوئی ہے۔جس میں کہا گیا کہ ہم انسانوں کے دوست ہیںاور آدمیوں کو تنگ نہیں کریں گے ۔معلوم ہوا کہ یہ روبوٹ بہتر رہنما ثابت ہو سکتے ہیں۔اس سے بڑے سوال جنم لے رہے ہیںخود ہمارے ذہن میںکلبلا رہے ہیں اور کیڑوں مکوڑوں کی طرح ان ذہنوں کو کند کررہے ہیںجو اس تحریر کے قارئین ہوں گے یا اس خبر کے سامعین و ناظرین ہوں گے جنھوں نے اس پریس کانفرنس کا نوٹس لیا ہوگا۔روبوٹس نے کہا کہ ہم انسانوں کی نوکریاں نہیںچھینیں گے ۔اپنی تعداد بڑھائیں گے ۔انسانوں سے بغاوت نہیںکریں گے۔میں سوچ رہاہوں کہ اس طرح تو بہت مشکل پڑ جائے گی۔یہ بھلا کس قسم کی کانفرنس ہے۔مگر ایک طرح سے اچھا ہی ہوگا ۔وہ یہ کہ سولہ آنے صحیح بات ہے اور سو فیصد سچی کہ ہم انسانوں سے بغاوت نہیں کریں گے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم دنیا کے مسائل کے حل کے بارے میں اپنا کام جاری رکھیں گے۔بہت عجیب بات ہے۔سوچتا ہوں کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔اب ہمارے حصے کے کام روبوٹس کریںگے۔جو ہمارے ہاں تعمیراتی کام میں حصہ لینے والی مشینیں ہیں وہ بھی تو روبوٹ ہیں ۔جیسے شاول ہوا اور دوسری بھاری مشینری ہوئی مگر اس مشینری کا دماغ نہیں ہے۔لیکن انسان کی طاقت سے ہزار ہا گنا زیادہ پاور رکھتی ہیں۔لیکن یہ بات ہے کہ ان کو بھی تو انسان ہی نے بنایا ہے۔دوسرے معنوں میں انسان نے خود اپنے لئے مصیبت ڈھونڈ لی ہے ۔تعمیراتی کام میں ایک بھاری مشین کافی ہوتی ہے جو تیس مزدوروں کا کام کرتی ہے ۔گویا تیس مزدور بے روزگار ہو جاتے ہیں۔وہاں میٹرو پولیٹن سٹی جنیوا کی اس کانفرنس میں کہا گیا ہے کہ ہم انسانوں سے بغاوت نہیں کریں گے اور ان کی نوکریاں خراب نہیں کریں گے۔انسان نما روبوٹس نے اس کانفرنس میں اپنی اپنی رائے دی ۔ سوچ رہا ہوں کہ جتنی بھی تعمیر ہو رہی ہے اس میں ایک خرابی بھی موجود ہے ۔ سوچ یہ ہے کہ ہم آگے جا رہے ہیں یا اپنے لئے آسانی کے نام پر اور زیادہ مشکلات کھڑی کر کے اپنی راہیں بند کررہے ہیں ۔مگر روبوٹ کے فائدے بھی بہت ہیں ۔ انسان سست پیداہوا ہے کام نہیں کرنا چاہتا۔ مگر روبوٹ تو انسان کو انکار نہیں کرتے اور اس کا سارا کام نپٹا دیتے ہیں۔ ویسے کارخانوں میں نت نئی مشینیں نصب ہیں اور انسانی ہاتھوں کا سارا کام پل جھل میں اورنفاست سے کرتی ہیں ۔ مگر ان کا اپنا دماغ نہیں ہوتا اور وہ کارخانہ دار کے دماغ پراور اس کے کہے پر چلتی ہیں۔انسان اپنا کام نہیں کرتا تو دوسروں کا کیا کرے گا۔ روبوٹ کا فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ اپنی طرح کے دوسرے روبوٹ بنائے گا۔ گویا روبوٹ کے نام پر انسان اپنے آپ کو خود تباہ کر رہا ہے یہ الگ بات ہے کہ روبوٹ کھائے گا نہیں ۔اگر کام کرنا چھوڑ دیا اس کی آئی سی بدل لیں گے یا اس کانظام اس طریقے پر ترتیب دیں گے کہ اس میں اپنے نقائص کو ٹھیک کرنے کا خودکار سسٹم بنا ہو۔پھر ہم تو لمبی تان کر سو جاتے ہیں ۔مگر یہ کیوں سوئے گا۔ غفلت تو ہم کرتے ہیں یہ کیوں غفلت سے کام لے گا۔ ویسے جو سائنسی ایجادات ہوتی ہیں وہ پہلے پہل فلموں میں دکھلاتے ہیں ۔ جو خیالی ہوتی ہیں ۔مگر وہی تخیلاتی اشیاءبعد میں حقیقت کا روپ دھا رلیتی ہیں۔معلوم نہیں آج کے انسان کی کیا حقیت ہے او روہ کیا چاہتا ہے او راس کی آخری منزل کون سی ہے۔اگر یہ تجربات رواج پاگئے تو روبوٹ توہماری مدد گار چیز کا نام بن جائے گا۔ جہاں ہم نہیںجا سکتے کہ ہمیں آکسیجن گیس کی ضرورت ہے وہاں خلائی سیاروں پر روبوٹ کو بھجوا کر ان کے ذریعے کام لیا جائے گا اور دنیا کا نظام مزید استوار کریںگے۔ایک فلم ہے جس کانام ہی روبوٹ ہے ۔ جو سائنس دان اس کو بناتا ہے ایک دن روبوٹ اس کی بغاوت کرنے لگتا ہے ۔یہاں اب یہ سوچنا ہے کہ کیا واقعی روبوٹ کی یہ بات سچ ہے کہ وہ انسان سے بغاوت نہیں کرے گا۔یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ روبوٹ اور انسان کا تعلق کب تک اور کتنا خوش گوار رہ سکتا ہے یا اس میں تلخی اور کشیدگی کا عنصر سامنے آئے گا کیونکہ جس تیزی کے ساتھ مصنوعی ذہانت پروان چڑھ رہی ہے تو اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والے زمانے کے روبوٹ کسی بھی وقت خطرہ بن سکتے ہیں۔