معلومات کی برق رفتار منتقلی اور معلومات کی بنیاد پر انسانی معاشروں کو زیرنگوں کرنے کے دور میں ’ڈیٹا (data)‘ خاص اہمیت کا حامل ہے اور اِسے بطور ہتھیار یا قیمتی جنس کے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ معلومات آج کی دنیا میں ہاتھوں ہاتھ بکنے والی جنس ہے جسے ’نیا ایندھن‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ امریکہ کے محکمہ¿ دفاع (پینٹاگون) نے حال ہی میں ایک دستاویز میں اعتراف کیا ہے کہ کئی ممالک ایسے ہیں جو ہر سال اربوں ڈالر کی معلومات امریکہ سے چوری کر رہے ہیں۔ یہ معلومات ٹیکنالوجی کی چوری کی صورت ہو رہی ہے یعنی امریکہ کے دفاعی و دیگر ادارے جس ٹیکنالوجی کو سال ہا سال کی محنت اور تحقیق میں سرمایہ کاری کے ذریعے تخلیق کرتے ہیں وہ چوری ہو رہی ہیں اور یہاِس قدر اہم (قابل ذکر) ہے کہ اِس کا تذکرہ کرتے ہوئے پینٹاگون نے تخمینہ لگایا ہے کہ مذکورہ سالانہ چوری کا حجم اربوں ڈالر ہے۔ درحقیقت‘ امریکہ سے ٹیکنالوجی کی مبینہ چوری میں وہ ممالک ملوث ہیں جن کے خلاف عالمی اقتصادی پابندیاں عائد ہیں اور دنیا کو اُن کے ساتھ تجارت اور تحقیق و ترقی کا تبادلہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایسے ممالک کی مجبوری ہے کہ وہ اپنے ہاں جن جن شعبوں میں ٹیکنالوجی کا اطلاق ہوتا ہے اُس کے لئے کسی بھی صورت میں ٹیکنالوجی حاصل کریں۔ امریکہ کی نظر میں ایسے ممالک میں ایران اور شمالی کوریا شامل ہیں جن پر عالمی اقتصادی پابندیاں عائد ہیں لیکن وہ اِس کے باوجود اپنے ہاں ٹیکنالوجی کو فروغ دے رہے ہیں۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو جن ممالک کے خلاف عالمی پابندیاں عائد ہیں وہ اِسے غنیمت سمجھ رہے ہیں کیونکہ امریکہ کی بلیک مارکیٹ سے جدید ٹیکنالوجی خریدنا صرف ایک ہی وقت کی قیمت ادا کرنا ہوتی ہے لیکن اگر امریکہ کے ساتھ تعلقات رکھتے ہوئے یہی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تو امریکہ ٹیکنالوجی کے بدلے کسی ملک کی اقتصادی‘ مالیاتی اور خارجہ فیصلہ سازی کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ امریکی دفاعی فیصلہ سازوں کے بقول ایران نے جس تیزی سے تکنیکی صلاحیت حاصل کی ہے وہ کسی بھی طرح معمولی نہیں اور ایران ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری مغربی ممالک کے برابر یا اِس سے زیادہ کر رہا ہے اور یہی صورتحال شمالی کوریا کے ساتھ بھی ہے۔ امریکی دفاعی ادارے کی دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ٹیکنالوجی کی چوری کے لئے بعض اوقات ہیکرز کا استعمال بھی کیا جاتا ہے جو امریکہ کے خلاف بطور انتقام کام کرتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ ایک امریکی فلم ”دی انٹرویو“ ریلیز ہونے کے بعد‘ جس میں سیٹھ روگن اور جیمز فرانکو نے شمالی کوریا کے رہنما ’کم جونگ ان‘ کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ شمالی کوریا کے ہیکرز نے ’سونی فلم کمپنی‘ کی ویب سائٹ کو ہیک کیا اور اس پر موجود ملازمین کے کوائف (ڈیٹا) آن لائن شائع کر دیا‘ جس میں ملازمین کے ذاتی ای میلز ایڈریسیز بھی شامل تھیں اور اِی میلز میں موجود وہ مواد بھی ’آن لائن (پبلک)‘ کر دیا تھا جو مختلف امریکی فنکاروں سے متعلق ادارے کے فیصلہ سازوں کے درمیان ہوئی بات چیت پر مبنی تھا اور وہ ذاتی نوعیت کی بات چیت تھی جس کا اگرچہ ’سونی فلم کمپنی‘ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بنتا لیکن پھر بھی اِس بات چیت سے امریکہ کے نامور فنکاروں کی بڑی بے عزتی ہوئی اور اِس بات چیت سے اخذ کردہ حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اُن کے بارے میں طرح طرح کے لطیفے اور مزاحیہ خاکے بنائے گے۔ شمالی کوریا کے ہیکرز نے ٹیکنالوجی پر اپنی مہارت اور صلاحیت کا جس تیزی سے جواب دیا یہ بات کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔معلومات کی دنیا میں جاری جنگ کو ’سائبر وار فیئر‘ کہا جاتا ہے۔ یہ عالمی جنگ دن رات جاری رہتی ہے اور اِس میں معلوم و نامعلوم دشمنوں یا اِن کے اتحادیوں کی خیر نہیں ہوتی اور کسی بھی وقت ہیکرز کی توپوں کا رخ اُن ممالک کی طرف بھی مڑ جاتا ہے جو امریکہ کے اتحادی ہوتے ہیں۔ اگرچہ سائبر آپریشنز کے حوالے سے قوانین موجود ہیں لیکن یہ ناکافی ہیں اور اِنہیں لاگو کرنا بھی آسان نہیں ہیں۔ فی الحال اِن قوانین کا اطلاق اُنہی لوگوں پر ہو رہا ہے جو قانون کا احترام کرتے ہیں اور جن کی نظروں میں آن لائن سرگرمیوں کے ذریعے کسی کے بارے میں معلومات تک رسائی جرم ہوتی ہے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ جیسے جیسے کمپیوٹروں کا استعمال بڑھے گا اور حکومتی امور ’اِی گورننس‘ کے ذریعے انجام دیئے جائیں گے ویسے ویسےور اداروں کے کوائف اور معلومات کو محفوظ رکھنا بھی ناممکن حد تک دشوار ہوتا چلا جائے گا۔ سائبر وار جاری ہے۔ گزشتہ برس کی بات ہے جب ایک امریکی ہیکر نے جس کی زیادہ تر زندگی اُس کے چھوٹے سے کمرے میں پاجامہ پہن کر گھنٹوں کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے گزر رہی تھی نے ’شمالی کوریا (پورے ملک)‘ کا انٹرنیٹ بند کر دیا تھا اور ایسا کرنے کی وجہ اُس نے یہ بتائی تھی کہ شمالی کوریا کے ہیکرز نے بھی امریکہ کے خلاف ایسا ہی اقدام کیا تھا۔سائبر آپریشن فوج کی افرادی قوت‘ جہاز‘ ڈرونز اور گولیوں یا بموں کے بغیر بھی اُتنا ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ تصور کریں کہ اگر ایک پاجامہ پہنے‘ تن تنہا ہیکر کسی ملک کا انٹرنیٹ بند کر سکتا ہے تو ٹیکنالوجی ایسا ہتھیار ہے جو ممالک میں بنیادی سہولیات اور حکمرانی کے نظاموں کو درہم برہم کر سکتی ہے اور اِس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ سائبر وار میں دشمن اور اُس کے ہتھیاروں کے نشانے چوکتے بھی نہیں اور یہ حملے دن رات جاری رہتے ہیں جس میں ایک دوسرے کے مدمقابل آئے بغیر لڑائی (جنگ) ہوتی ہے اور اِس میں جانی نقصان نہیں ہوتا لیکن اِس سے ہونےوالا مالی نقصان شمار بھی نہیں کیا جا سکتا۔