قطار اندر قطار

پھولوں کے اس شہر میں قطار در قطار گل و گلزار ہونے چاہئیں مگر یہ کیا ہے کہ دیوار در دیوار یہاں بد بو¶ں کے ڈیرے ہیں‘شہر کی فصیل سے باہر تو کہیں کوڑے کے ڈمپر نظر آ جاتے ہیں مگر ڈمپروںکے ہونے کے باوجود یہ خالی نظر آتے ہیں او رکوڑا ان ڈمپرو ںکے باہر زمین پر اس کے چاروں اطراف گرا پڑا نظر آتا ہے مگر خاص شہر کے اندر رہائشی علاقوں میں تنگ وتاریک گلی کوچوں میں پھولوں کی خوشبو کا تصور اب کہاں‘ برسوں پہلے پشاور کی حالت وہ نہ تھی جو کتابوں میں درج ہے اُس وقت کا پشاور اور پشور تو کھلا ڈلا کھیت کھلیان اور پھولوں کے تختوں والا شہر تھا سو اس کو اگر پھولوں کا شہر کہا گیاتو غلط نہیں کہا مگر اب تو یہ گند گریل کا شہر بن چکا ہے اندرون شہر کچرا کسی انجانی دیوار کے ساتھ زمین پر پڑا نظر آتا ہے‘ حالانکہ وہاں بھی ڈمپر پڑا ہوگا جس میں یہ لوگ گند اور غلاظت کے شاپر نہیں پھینکے گے‘ان سے اتنا نہیں ہوتاکہ ہاتھ اوپر کر کے گندے شاپر ڈرم کے اندر اچھال دیں بلکہ گھروں والے اس کام کے لئے بچوں کو استعمال کرتے ہیں کہ جا¶ یہ شاپر پھینک آ¶مگر اس کو یہ نہیںسمجھاتے کہ بیٹا ڈرم کے اندر پھینکنا مگر بیٹے کا بھی کیا قصور ‘ کیونکہ بچہ آگے جائے تو وہاں سے ڈمپر اٹھا کر گند گرانے کے لئے دور لے جایا گیا ہو تو اس کی واپسی کے لئے ابھی بہت وقت ہو تو وہ بیٹا تو ہوا غیر ذمہ دار وہ تو اس شاپر کو ڈمپر والے مقام پر یونہی لڑھکا کر واپس چلا آئے گا۔پھر جہاں گند گرایا جاتا ہے وہ کسی کی جائیداد نہیں ہوتی وہ تو کسی پارک کے کنارے کی دیوار ہوتی ہے جس کا کوئی مالک نہیں ہوتا‘ہاں مگر یہ بات کون سمجھے اور کس کو سمجھائے کہ یہ پارک اگر حکومت کی تحویل میں ہے تو اس کا مقصد یہ ہوا کہ یہ جگہ عوام الناس کی ملکیت میں ہے ‘سو اس کے ہم سب ہی وارث بھی ہیںہاں اگر یہ کسی ایک شخص کی جگہ ہوتی تو لٹھ لے کرباہر نکلا ہوتاکہ یہ گند کیوں پھینک رہے ہو۔ مگر یہ شہری اس وقت بھی باز نہ آتے اور کسی پلاٹ یا خالی میدان کا مالک رات کو سو جائے تو یہ پچھلے پہر وہاں گند گرا آتے ہیں۔ سو کیا معلوم کس نے پھینکا کون آیا اور کہاں گیا۔اب کوڑے کے لیبارٹری ٹیسٹ تو نہیںہوں گے کہ یہ کس مکان سے نکلاہے اور پھر ان استعمال شدہ اشیاءکے فرانزک ٹیسٹ ہو ں‘ انگلیوں کے نشانات دیکھے جائیں۔اب کون اتنا فارغ ہے کہ یہ وبال سر لے گا ‘پھر اگر لے بھی لے تو اس کا زیرو بٹا زیرو فائدہ ہے ‘سو وہاں گند پھینکو اور واپس آ¶۔شہر میں پھولوں کی قطاروں کے بجائے گند کی قطاریں روز بروز پھیل رہی ہیں ۔پھر قطار بھی ایسی ویسی جہاں تک دیوار جاتی ہے وہاں تک گند بھی ساتھ ساتھ جا رہاہے۔یہ نہیں دیکھتے کہ ہم جس عمارت کی دیوار کے پاس گند پھینکتے ہیں وہ تو تاریخی کھنڈرات ہیں ۔یہ بھی تو ہماری ہی ملکیت ہیں بلکہ ہماری اپنی پہچان ہیں ‘ باہر ملکوں کے سیر بین کیا کہیں گے اگر وہ بالفرض یہاں آگئے۔ اول تو انہوں نے یہاں آنا ہی نہیںجب تک کہ بھرپور طریقے سے امن قائم نہ ہو جائے۔کیونکہ عرصہ تئیس سال پہلے آخری بار یہاں کے تاریخی شہر پشاور او راس کے گرد ونواح کی سیرکرنے کو اس کے کھنڈرات اور تاریخی عمارات کی تصویریں لینے کو یہ گورے وغیرہ آئے تھے مگر جب سے شہر کا حال برا ہواان کو بھلا کیا ضرورت کہ سانپ کی بانبی میں ہاتھ دیں۔ ا س سے پہلے سیاح خوب آتے تھے یہاں کی تصاویر اور موویاں بناتے تھے مگر انہوں نے اپنی زندگی کے ڈر کے مارے یہاں دیکھنا بھی ترک کر دیا ہے‘اب اگر وہ آئے تو انہوں نے تاریخی عمارات اور پرانے گھروں میں سے برآمد شدہ تہہ خانوں کی پکچر نہیں لینا اور نہ ہی اس کی ویڈیو بنانا ہے ۔وہ سیدھا جائیں گے ان بے شمار کوڑے کے ڈھیروں کی جانب جو شہر کے اطراف وجوانب اور اندرون شہر تاحدِ نظر پھیلے ہوئے شہر کو تعفن زدہ کر رہے ہیں‘عید کے دنوں میں تو قربانی کے جانوروں کی آلائشوں کو اچھے طریقے سے اٹھایا گیا اورعملہ صفائی کوشاباشی بھی ملی مگر اب وہی حالت جو پہلے تھی موجودہے۔ صفائی کےلئے میٹنگ کرنا بیکا رثابت ہو رہاہے کیونکہ صرف بڑی عید کا ہی مسئلہ تو نہیں ‘ جب تک روزانہ صفائی نہ ہو یہ بیل منڈھے چڑھتے دکھائی نہیں دیتی ۔اس کےلئے باقاعدہ طو انتظام کا راستہ اپنایا جانا چاہئے