عالمی موسمیاتی تنظیم (ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن ڈبلیو ایم او) اور اقوام متحدہ کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ رواں برس شدید گرمی کی لہر کا سامنا کیا جائے گا۔ گرمی کی اِس لہر اُور موسمیاتی تبدیلی کے انداز کو ’ال نینو (El Nino)‘ کا نام دیا گیا ہے جس سے رواں برس (دوہزارتیئس) کے دوران اکثر ممالک کلی جبکہ دیگر جزوی طور پر متاثر ہوں گے گویا موسمی اثرات سے محفوظ و خبردار رہنے کے لئے ’خطرے کی گھنٹی‘ بجا دی گئی ہے۔ اِس انتباہ کو کسی بھی صورت معمولی نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ اس کے مضمرات دور رس اور ممکنہ طور پر تباہ کن ہیں اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ ’ال نِینو‘ کے اثرات کم کرنے کے لئے فوری و فعال اقدامات کی ضرورت ہے۔ وہ لوگ جو نہیں جانتے اُن کے عرض ہے کہ ’ال نِینو‘ آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے ظاہر ہونے والا قدرتی عمل ہے جو عالمی درجہ حرارت سے متعلق علوم میں گہرائی و تحقیق سے معلوم کیا گیا ہے۔ یہ دنیا کے لئے خطرات پیدا کرتا ہے اور مختلف ممالک میں اِس کی وجہ سے گرمی کی لہر (ہیٹ ویو)‘ خشک سالی اور معمول سے زیادہ موسلادھار بارشیں ہوتی ہیں ’ڈبلیو ایم او‘ پہلے ہی ’ال نینو‘ کے آغاز کا اعلان کر چکا ہے اور اِس کا یہ بھی کہنا ہے کہ رواں سال (دوہزارتیئس) کے دوران اِس کے جاری رہنے کے 90فیصد امکانات ہیں لہٰذا ہنگامی حالات سے نمٹنے کے حکومتی اداروں کو چاہئے کہ وہ اپنی تیاری مکمل رکھیں اور شہریوں کی حفاظت اور فلاح و بہبود کو ترجیح دی جانی چاہئے۔ قدرتی آفات کی تیاری کے مربوط منصوبے اور آب و ہوا سے مطابقت کی حکمت عملی انتہائی اہم ہے۔ اس کے علاو¿ہ ’ال نِینو‘ کے اثرات سے نمٹنے کے لئے ابتدائی انتباہ اور پیشگی اقدامات اِس کے اثرات کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آب و ہوا کی نگرانی کے جدید نظام اور تحقیق میں سرمایہ کاری وقت کی ضرورت ہے اور اگر ایسا بروقت کر لیا گیا تو کمزور برادریوں کے تحفظ‘ بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور اِس حوالے سے پائیدار اقدامات کو فروغ دینے سے نقصانات میں خاطرخواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں عالمی اداروں کی طرف سے جاری ہونے والے انتباہ پر کان دھرنا چاہئے کیونکہ پیچیدہ ال نینو کا تعلق بارشوں سے بھی ہے۔ ال نینو کی وجہ سے موسم سرما میں کم اور موسم گرما میں اوسط سے زیادہ بارشیں ہونے کے باعث آبپاشی اور پینے کے مقاصد کے لئے پانی کی دستیابی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اس سے زرعی پیداوار میں کمی ہوتی ہے جس سے لاکھوں کسانوں کا ذریعہ معاش جڑا ہوا ہے اور ممکنہ طور پر یہ غذائی عدم تحفظ جیسے مزید چیلنجز پیدا کرے گا۔ ال نینو کی وجہ سے سمندر میں بھی مد و جزر اُٹھتے ہیں اور برسرزمین حالات کے مقابلے اس کا اثر سمندری ماحولیاتی نظام کو بھی متاثر کرتا ہے‘ جس سے پاکستان کی ماہی گیری کی صنعت متاثر ہوگی۔موسمیاتی اثرات کی صورت خطرے کو کم کرنے کے لئے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ اِس تعاون کو آسان بنانے‘ کوششوں کو مربوط اُور معلومات کے تبادلے میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ وسائل‘ مہارت اور ٹیکنالوجیز کو یکجا کرکے‘ قدرتی آفات کے نقصانات مل بانٹ کر (اجتماعی طور پر) برداشت کئے جا سکتے ہیں۔ ماحول دشمن (گرین ہاو¿س) گیسوں کے اخراج کو کم کرنا ہر چھوٹے بڑے ملک کی ذمہ داری ہے جبکہ ال نِینو سے پیدا ہونے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی ایک پائیدار و مربوط عالمی حکمت عملی کی تیاری میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وقت تیزی سے صرف گزر نہیں رہا ہے بلکہ ہاتھ سے نکل رہا ہے!