کالم کیسے لکھتے ہیں

یہ سوال مجھ سے اکثر ہوتا ہے کہ آپ کالم کیسے لکھتے ہیں ۔ اس بابت دیگر متعلقہ سوالات بھی ہوتے ہیں ۔جہاں تک بن پاتا ہے اس سوالوں کے جوابات دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ پھر یہ سوالات اردو کی ایم اے کلاسوں کے سٹوڈنٹس پوچھتے ہیں ۔ چونکہ ان کو کالم نگاری سے دل چسپی بھی ہوتی ہے او رپھر یہی کالم نویسی ان کے کورس میں بھی شامل ہوتی ہے ۔پھر ان کو اگر اپنے ٹیچر کے ساتھ بھی رغبت ہے تو وہ اپنے معلم کی ہر بات بارے جانکاری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔سو وہ اس حوالے سے بھی سوال کرتے ہیں ۔آپ کتنی دیر میں ایک کالم لکھتے ہیں۔ جو باتیں آپ لکھتے ہیں وہ کہا ںسے لاتے ہیں ۔الغرض قسم قسم کے سوالات سننے کو ملتے ہیں۔ اکثر جب پوچھیں کہ آپ کالم کیسے لکھتے ہیں تو پہلے میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ بس لکھ لیتا ہوں مجھے خود معلوم نہیں کیسے لکھتا ہوں۔مگر اس جواب کے ساتھ طلباءکی تسلی نہیں ہوپاتی ۔سو اس بات کو کھولنے کے لئے تاکہ ان کے ذہن میں بات بیٹھے اور وہ بھی سیکھیں ۔ کہنا پڑتا ہے ہم تو لکھ لکھ کر پرانے ہو چکے ہیں ۔اب اس میدان کو نئے خون کی ضرورت ہے۔پھر وہ اگر کالم لکھیں نہ لکھیں ان کو اگلی کلاسوں میں تھیسس کے لئے مسلسل لکھنا ہوتا ہے ۔سو اس طرح ان کی مشق ہونا عین ممکن ہے۔ہم تو تئیس سال سے کالم آرائی میں ملوث ہیں۔یہ اس لئے لکھا ہے کہ کسی بھی فیلڈ میں مشق آدمی کو مہارت عطا کرتی ہے۔مواد کی تلاس کے بارے میں پوچھا جاتا ہے ۔ بہر حال ہم تو جیسے تیسے ممکن ہو تو ان کی تربیت کے لئے جوابات دیتے ہیں ۔مواد کا یہ ہے کہ کالم نگار کو ہر طرف نگاہ رکھنا ہوتی ہے ۔ٹی وی کی خبریں اخبار دیکھنا معاشرے کی اونچ نیچ پر نگاہ رکھنا سرِ راہ جاتے ہوئے ہر منظر کو آنکھوں میں محفوظ کرنا پھر ذاتی مطالعہ اور موبائل کے معلوماتی ویب سائٹس کا نظارہ کرنا مووی کلپ دیکھنا اور ہر طرح سے اپنے آپ کو مطلع رکھنا بہت ضروری ہے ۔یہ تمام باتیں اور اس طرح کی تمام باتیں جن کا تعلق انفارمیشن سے ہے نوٹس میں رکھنا پڑتی ہیں ۔کیونکہ کالم کے دورانِ میں رائٹر کے ذہن میں موضوع کے حوالے سے یہاں وہاں کی جو باتیں موجود ہوتی ہیںوہ سب ایک ایک کرکے یاد آنا شروع ہو جاتی ہیں۔جو لکھتے ہوئے ساتھ ساتھ قلم کی زبان سے ٹپکتی ہیں۔اس ضمن میں بہت سی باتیں ہیں جن کااحاطہ کرنا یہاں ممکن نہ ہوگا۔کالم کو کس طرح پیش کرنا ہے۔ا س کے لئے طریقہ نہیں چاہئے بلکہ سلیقہ مگر نہیں ایک لحظہ ٹھہریں قرینہ درکا رہے کہ مواد کی پیش کاری کس طرح ہو ۔ہر بات کو تحریر میں بھی تو نہیں لایا جا سکتا ۔یہ نہیںدیکھنا کیا کیا لکھنا ہے ۔بلکہ قلم جب رواں دواں ہو جائے تو پھر اس وقت یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کیا کیا نہیں لکھنا ۔یہ چیز بہت ضروری ہے ۔ کیونکہ ایسی بات لکھنے کے دوران میں آپ کے قلم سے ڈھلک نہ جائے جو قابلِ اعتراض ہو ۔کیونکہ آپ کی تحریر کو پڑھنے والے بہت ہوتے ہیں اور ہر دماغ اور سوچ کے حامل لوگ ہوتے ہیں۔ کسی کو آپ کی بات اچھی لگے گی اور کسی کو بری لگے گی۔مگر یہ دھیان رہے کہ آپ کے قلم کی زبان سے کوئی دکھی ہو نہ ہو۔پھر اگر آپ اپنے کالم کے ہتھیار سے دوسروں کے دلوں کے زخم تازہ کرتے جائیں تو اس کالم کاری سے کیا فائدہ ۔پھر تو بہتر ہے کہ آپ کا قلم ہمیشہ کے لئے خاموش رہے ۔” افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں ۔ بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغِ سحر خیز“۔ جو مواد آپ نے کالم کے فریم میں رکھنا ہے اس کو سجا سنوار کر پیش کرنا ہے۔کیونکہ یہ بات یاد رہے کہ ہر بات لکھی نہیں جا سکتی۔ہر حقیقت کو افسانہ نہیں بنایا جا سکتا ہے ۔حقیقت بے لباس ہوتی ہے اس کی پیش کاری کے وقت الفاظ کے بیشتر پردے ہوتے ہیں جو اس حقیقت پر ڈال کر اس کو دوسروں کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔الفاظ کا چنا¶ ایسا ہو کہ اگلا عش عش کراٹھے ایسا بھونڈا اندازِ نہ ہو کہ دوسرااس کالم کو پڑھنے سے پشیمانی کا اظہار کرے ۔پھر ہر کالم نویس کا اپنا سا انداز ہوتا ہے جو دوسرے کے پاس نہیں ہوتا ۔ وہ اپنے سٹائل کو چھوڑ نہیں سکتا او ردوسرے سٹائل کو اگرچہ کہ آسان ہی کیوں نہ ہو اپنا نہیں سکتا ۔یہی عناصر ایک کالم نگار کے اندازِ تحریر کو متعین کرتے ہیں ۔اس کو شہرت اور عزت بھی دلاتے ہیں اور بعض اوقات معاملہ اس کے الٹ بھی ہوجاتا ہے۔لیکن یہ ہے کہ اخبار کے لئے لکھنا انتہائی ذمہ داری کا کام ہے ۔کیونکہ آپ کی تحریر آپ کے سٹڈی روم تک محدود نہیں رہتی ۔بلکہ کمرے سے نکل کر دنیا کے چاروں اور پھیل جاتی ہے۔آج کل نیٹ نے تمام پردوں کے پیچھے چھپی حقیقتوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔آج بندہ بقول ِ میر“ لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام ۔ آفاق کی اس کارگہ ِ شیشہ گری کا “۔ الفاظ کے سہارے پہلے کالم کا تانا بُنا جاتا ہے یعنی اوپر سے نیچے دھاگے ترتیب دے کر کھڈی پہ کھینچ تان لئے جاتے ہیں ۔پھر اس میں جیسے بچے خوبصورت قالین بناتے ہیں بانا بُنا جاتا ہے ۔یعنی دائیں بائیں دھاگوں کی گرہیں لگا کر اپنے تئیں ایک خوبصورت چیز تیار کی جاتی ہے ۔جیسے ماہر سلیقہ مند خاتون کی اون کی دو سلائیاں ہوں جن پروہ سویٹر بن رہی ہو۔ اسی پر بات ختم نہیں۔ یعنی تخلیقی صلاحیت کو کام میں لاتے ہوئے جو کچھ کاغذ پر منتقل کیا جاتا ہے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے کیونکہ زندگی کا ہر لمحہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے اور ہر لمحے کی الگ الگ کہانی ہے تاہم اس کہانی کو سمجھنے اور اس کے کرداروں کو پرکھنے کے لئے دل و دماغ کے دروازوں کو کھولنا پڑتا ہے۔ بلکہ بقولِ اقبال ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ۔مگر ان مضامین کی چہرہ کشائی کسی اورموقع کے لئے اٹھا رکھتے ہیں ۔