دنیا بھر میں پانی کی قلت سے ممالک کے در میان پانی کے تنازعے پر تعلقات تومتاثر ہونے ہی لگے ہیں اور یہ ابھی ابتداءہے آگے آنے والی صورتحال زیادہ سنگین ہوسکتی ہے۔ تاہم اب ممالک کے اندر مختلف علاقوں اور برادریوں کے درمیان بھی تنازعات نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے ۔ اس کی ایک مثال فرانس ہے جہاںایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اپریل میں ایک چوتھائی یورپ خشک سالی کا شکار رہا۔ ماہرین نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے طرز زراعت میں تبدیلی پر زور دیتے ہوئے یورپی یونین سے زرعی شعبے کے لئے مشترکہ پالیسی میں بھی جدید اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔فرانس کے نوویل ایکویٹائن کے علاقے میں خشک سالی سے متاثرہ کسانوں کیلئے یہ ایک مشکل وقت ہے ۔ لیکن اس ماہ کے شروع میں ہونے والی بارشوں نے ان زرعی پیداواری محنت کشوں کو ایک مختصر سا ریلیف ہی دیا، جنہیں پانی کی قلت کے سبب بڑھتے ہوئے تنازعات کی وجہ سے اب پریشانیوں کا سامنا ہے۔آبپاشی کے لئے بڑے ذخائر کی تعمیر پر ماحولیاتی مہم چلانے والوں اور کسانوں کے درمیان تنا ﺅنے مغربی فرانس کے اس علاقے میں دیہی برادریوں کو منقسم کر کے رکھ دیا ہے۔ماحولیاتی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ علاقے، جنہیں وہ 'میگا بیسن کہتے ہیں، بہت بڑے ہیں اور ان سے صرف صنعتی پیمانے پر فارمنگ کرنے والوں کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ بی این ایم نامی ایک غیر منافع بخش ادارہ ان فارمنگ سائٹس کو 'پانی پر قبضہ کرنے والے ایک علاقے کا نام دیتا ہے۔تاہم بہت سے کسان اس طرح کے پانی کے ذخیرے کو علاقے میں زراعت کی اقتصادی بقا اور غذائی تحفظ کی کلید کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ آبی ذخائر کے خلاف مظاہروں سے مایوس ہیں، جن میں سے کچھ تو پرتشدد جھڑپوں پر بھی منتج ہوئے۔اس علاقے میں کم از کم 200
کسانوں کی نمائندگی کرنے والی امداد باہمی کی ایک تنظیم واٹر کوآپریٹیو 79 کے ایڈمنسٹریٹر فرانسوا پیٹورین کا کہنا ہے، ''(احتجاجی مظاہرے) ہم پر اور ہمارے خاندانوں پر ناقابل برداشت دبا ڈالتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا، ہر کوئی ہم پر تنقید تو کرتا ہے لیکن کوئی حل کوئی پیش نہیں کرتا۔فرانس نے فروری 1959 کے بعد اپنی تاریخ کے بدترین موسم سرما کی خشک سالی کا سامنا کیا۔ اسی طرح ہمسایہ ملک سپین بھی تین سال سے اوسط سے کم بارشوں کا شکار ہے، جس سے گھریلو استعمال، زراعت اور توانائی کی پیداوار کے لئے پانی کی فراہمی پر دباﺅ پڑ رہا ہے۔جنوبی یورپ کے بیشتر حصے خشک سالی سے متاثرہ ہیں۔ پانی کی بڑھتی ہوئی قلت یورپ میں روایتی طرز زراعت پر نظر ثانی کی متقاضی ہے، جس میں یہ بھی شامل ہے کہ کس طرح محدود سپلائی بھی مختص کی جانا چاہئے۔پانی بڑھتے ہوئے تنازعات کی ایک وجہ ہے۔ کیونکہ یہ صورت حال خشک سالی کے شکار اس خطے میں پانی کی کم ہوتی دستیابی میں اس کا سب سے زیادہ استعمال کرنے والے کسانوں کو ہر کسی کے خلاف ایک تنازعے میں لا کھڑا کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں پھر یہ سوال اٹھائے جاتے ہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ پانی کے انتظام کو بھی کس طرح تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔سپین کی یونیورسٹی آف مالاگا میں خشک سالی سے متعلقہ امور کے ماہر جیسس وارگاس کے مطابق، خشک سالی زیادہ، بار بار اور
مزید شدت اختیار کرنے والی ہے، اور ہمارے پاس ایک ایسا زرعی ماڈل ہے، جو پانی کی مانگ میں مسلسل اضافہ چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حال اس طرح تو نہیں رہ سکتی۔کچھ ایسی ہی صورت حال سپین کے ڈونانا وائلڈ لائف ریزرو میں بھی ہے، جو یورپ کے سب سے بڑے دلدلی علاقوں میں سے ایک ہے۔ ماحول دوست سبز مہم چلانے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں جھیلیں خشک ہو چکی ہیں اور حیاتیاتی تنوع ختم ہو رہا ہے کیونکہ علاقے کو کھیتوں کی آبیاری کے لئے پانی کا رخ موڑے جانے کے عمل کا سامنا ہے۔سپین اور فرانس نے شدید خشک سالی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات سے نمٹنے کے لئے یورپی یونین سے مالی مدد کی درخواست بھی کی ہے۔یہ تو یورپ کی بات ہوئی جہاں مسائل کے حل کیلئے منصوبہ بندی ہورہی ہے ، جنوبی ایشیاءجہاں ہم بستے ہیں یہاں پر پانی کی قلت کا مسئلہ زیادہ سنگین اس لحاظ سے ہو سکتا ہے کہ یہاں پر مسئلے کی سنگینی کا احساس بھی دیر سے ہوتا ہے اور مسئلے کے حل کی طرف توجہ بھی اس وقت ہی دی جاتی ہے جب ہنگامی حالت کا سامنا ہو۔ہمارے ہاں پانی کے معاملے پر مقامی تنازعات نہ ہونے کے برابر ہیں تاہم جس طرح یہ مسئلہ عالمی سطح پر بڑھ رہا ہے ا سکے اثرات سے بچنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جائیگا۔ اب بھی کچھ علاقوں سے لوگ پانی کی نایابی کے باعث نقل مکانی پر مجبور ہیں۔یہ سب موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے کہ ایک مقام پر اگر خشک سالی کا سامنا ہے تو ساتھ ہی دوسرے مقام پر سیلابوں نے زندگی کی معمولات کو متاثر کیا ہے اور دونوں صورتوں میں ہی نقل مکانی تک بات پہنچ جاتی ہے۔ خشک سالی کے علاقے کو بھی لوگ چھوڑ کر پانی کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں اور سیلابوں سے گھر بار متاثر ہونے کے باعث بھی لوگ اپنے علاقوں کو چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں جس سے معاشی مسائل میں اضافہ ہوتار رہتا ہے ۔