جب کہیں ماضی کی قوم کے کھنڈرات ہاتھ لگتے ہیں تو اس کی تہوں میں اُترا جاتا ہے ۔ وہاں سے برتن اور سکے وغیرہ نکال کر ان پر تحقیق کی جاتی ہے کہ یہ کتنے ہزار سال پرانے ہیں ۔ پھر وہ سکے اور وہ برتن وغیرہ دوسرے ملکوں کے عجائب گھروں کے ساتھ نمونے کے طور پر شیئر کئے جاتے ہیں ۔تاکہ معلوم ہو کہ جو ہمارے ہاںسے دریافت ہوئے یہ نوادرات دوسرے عجائب گھرو ںمیں ہیں کہ نہیں ہیں۔تاکہ ان سے سند مل سکے کہ جو تازہ ترین دریافت ہے وہ پچھلوں سے زیادہ پرانی ہے یا ان سے زیادہ قدیم نہیں ۔ان کی یہ قدامت کھوجیوں کے لئے دل چسپی سے خالی نہیں ہوتی۔ پھر جب معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ تو فلاں قوم کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ۔پھر اس کے بعد یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس قوم میں کون کون سے لوگ گزرے ہیں جو فنونِ لطیفہ میں بہت ماہر تھے۔ اس حوالے سے آگے بات آرہی ہے کہ فنونِ لطیفہ ہے کیا ۔روپیہ پیسہ تو انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ حاصل بھی کرتا ہے اور سونا موتی جمع بھی کرتا ہے۔کھنڈرات میں سے اگر اس زمانے کی کرنسی کا کروڑوں روپیہ نکل آئے وہ اب موجودہ دور میں کس کام کا ۔وہ تو مثال مٹی کی ٹھیکرے ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں ۔کرنسی تو جس زمانے کی تھی اسی زمانے میں قابلِ توجہ اور وقعت والی ہوگی ۔مگر اب تو ان سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ہاں وہ یہ دیکھتے ہیں کہ اس قوم میں کتنے فنکار گزرے ہیں ۔کتنے شاعر ادیب اور کتنے ماہر فنونِ لطیفہ گزر گئے ہیں۔کیونکہ یہی لوگ جن کا تعلق فنون ِ لطیفہ سے ہوتا ہے وہی کسی بھی قوم کااصل سرمایہ ہوتے ہیں۔ زمانہ قدیم کے شاعرو ںاور ادیبوں اور مصوروں کی عزت آج کے زندہ فنکاروں سے زیادہ ہوگی۔فنون لطفیہ کو سمجھنے سے پہلے اس کے متضاد کو سمجھنا ہوگا ۔کیونکہ چیزوں کے جوڑے اسی لئے بنے ہیں تاکہ ان سے ایک دوسرے کی شناخت ہو سکتی ہے۔فنون فن سے ہے کسی بھی ہنر کو فن کہا جائے گا۔ مفید فائدے سے ہے ۔یعنی وہ فن یا ہنر جن سے بندہ پیسے کماتا ہے وہ سب فنونِ مفیدہ ہیں ۔ کیونکہ بنی نوعِ انسان کو فائدہ دیتے ہیں۔گِل کا ریا معمار کا فن موچی کا ہنر لوہار کی ہتھوڑا بازی اور اس کے علاوہ او ربہت سینکڑوں فنون ایسے ہیں کہ جو بموقعہ سیکھے جا سکتے ہیں۔ ہر فنکار کا فن اس کی کمائی کا ذریعہ ہے ۔نہ صرف وہ بلکہ اس کے بچے بھی باپ سے سیکھ کر روپیہ پیسہ کما سکتے ہیں ۔ ایسے تمام فن فنونِ مفیدہ کہلاتے ہیں۔جن کامقصد روپیہ پیسہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔جو اس لئے اختیار کئے جاتے کہ ان سے روپیہ کے بجائے مسرت اور مزا حاصل کیا جائے اور دوسروں کو مہیا کیا جائے جیسے شاعری ہے مصوری ہے اور مجسمہ سازی وغیرہ ہے ‘اس طرح کئی دوسرے فنون لطیف ہوتے ہیں‘ مقصد یہ کہ لطیف کا مقصد خوبصورت ہوتے ہیں۔ان کے اختیار کرنے کا مقصد ہی خوبصورتی کی تلاش کرنا ہوتا ہے‘اس لئے جو فنون خوبصورتی کی تلاش کےلئے او راپنے ذاتی مزے اور لطف کےلئے حاصل کئے جائیں وہ سب فنونِ لطیفہ کہلاتے ہیں ‘فنون ِ لطیفہ کا کمال یہ ہوتا ہے کہ اس کو کسب کے ساتھ جیسے سنہار کا فن ہوتا ہے سیکھا نہیں جا سکتا۔ان کو ہنر ہائے زیبا کا نام بھی دیا جاتا ہے۔فنون ِ لطیفہ میں سب سے زیادہ معروف اور رائج فن شاعری کا فن ہے ۔ جو کسی سے سیکھ نہیں سکتے جس کو آتا ہے اس کو قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے‘ بعض یونیورسٹیو ںمیں فائن آرٹس کا ڈیپارٹمنٹ بھی ہوتا ہے۔فائن آرٹ انگریزی زبان میں فنون لطیفہ کو کہتے ہیں‘آثارِ قدیمہ کی کھوج لگانے والے سازو سامان کی پرکھ پرچول کر کے اس قوم کے مالدار اشخاص کی کھو ج نہیں کرتے بلکہ اس دور کے فنون لطیفہ کے ماہرین کی تلاش کرتے ہیں ان کو ڈھونڈتے ہیں کہ اس قوم کا اصل پہچان یہ ٹوٹے ہوئے کاسے اور لٹے پُٹے سکے نہیں‘کسی قو م کی ترقی و کمال کی نشانی یہی فنونِ لطیفہ کے لوگ ہوتے ہیں ۔کیونکہ فائن آرٹ بچوں کا کھیل نہیں‘خطاطی کاشی گری ظروف سازی بھی کسی لحاظ سے فائن آرٹ ہے‘فنِ تعمیر تو ضرورت ہے مگر جب تاج محل جیسی خوبصورت عمارت کا ذکر ہو تو وہ فائن آرٹ کا نمونہ بن جاتا ہے۔جو ایک طرف اس کے بنانے والے فنکاروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہوتاہے تو ساتھ فن کے شائقین کیلئے دلی تسکین کا ذریعہ۔