دو حالیہ اور بظاہر غیر متعلقہ خبریں لائق توجہ ہیں جو امریکہ کی خارجہ پالیسی اور اِس کی اقدار کے حوالے سے سنجیدہ سوالات لئے ہوئے ہیں کہ کیا مستقل اقدار کے بغیر کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی توانا ہو سکتی ہے؟ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی غیرمشروط حمایت اور اسرائیل کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کرنے سے مسلمان ممالک میں بطور خاص تشویش پائی جاتی ہے۔ حال ہی میں ایک فلسطینی گاو¿ں ’ترمس ایا‘ پر اسرائیلی آباد کاروں نے حملہ کیا اور اِس پر امریکہ کا ردعمل مختلف ہونا چاہئے تھا۔ دوسری خبر میں امریکہ نے روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی کی منظوری دی ہے جس سے ظاہر ہے کہ جنگ کی شدت میں کمی نہیں آئے گی بلکہ روس یوکرین تنازعے کی شدت میں اضافہ ہوگا جس کا آلاو¿ پہلے ہی بلند ہے! امریکہ کی جانب سے یوکرین کو ’کلسٹر بم‘ جو کہ انتہائی خطرناک ہتھیار ہے اوراس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوتے ہیں اگر یوکرین کو دیئے گئے تو روس کے لئے جواباً اتنے ہی بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال ناگزیر ہو جائے گا اور یوں روس یوکرین جنگ ایک نئے دور میں داخل ہو جائے گی‘ جس کی انتہا ’جوہری ہتھیاروں‘ کے استعمال کی صورت ہر دن پہلے سے زیادہ قریب آ رہی ہے۔ کیا کرہ¿ ارض پر انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کے غیرمحفوظ مستقبل کو محفوظ ہے؟ اگر نہیں تو اصلاحات کی ضرورت کہاں ہے اور انسانی مستقبل کو کیسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے؟اسرائیل دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جس کا وجود ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے اُبھرا اور برقرار ہے اور ظلم کی بھی آخر کوئی تو حد ہوتی ہے اور اسرائیل بہت پہلے یہ حد پھلانگ چکا ہے! منہ زور اسرائیل سے تعلق رکھنے والے مسلح آبادکاروں کے حملے اور مقامی افراد کے گھروں و دیگر املاک کو نذر آتش کرنے کے واقعے میں ایک رہائشی کی ہلاکت اور بارہ دیگر کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ یہ سب فلسطینی ہیں اور فلسطینی متاثرین میں امریکی شہری بھی شامل ہیں اور یہی وجہ تھی کہ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے فوری طور پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی اور اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ جرائم کی تحقیقات کرے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے تاہم ایسی کوئی ایک بھی مثال موجود نہیں جس میں اسرائیل کی حکومت یا اسرائیل کے عوام کی جانب سے فلسطینیوں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کی گئی ہو۔ اسرائیل کی حکومت اور اسرائیل کے عوام ’قابو سے باہر‘ ہیں جنہیں لگام دینے کے لئے امریکہ سے توقع رکھنا ’خود فریبی‘ ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ فلسطینی آباد کاروں کا تشدد کا سلسلہ نیا نہیں ہے۔ یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے اور فلسطینیوں کو اُن کی اپنی ہی سرزمین سے محروم کرنے‘ اُن کی فصلوں اور باغات پر قبضہ معمول بن چکا ہے اور تشویشناک بات یہ ہے کہ حالیہ چند برس میں‘ اِس طرح کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے‘ جو معمول بنتے جا رہے ہیں۔ دنیا اسرائیل کے مذموم ارادوں سے باخبر ہے ۔ اسرائیل کی صیہونی تحریک کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کو اُن کی سرزمین سے بے دخل کیا جائے‘ اِس قسم کا بیان اور اِس قسم کے بیانئے کی امریکی حمایت واضح طور پر نسل پرستانہ اور فلسطینیوں کے خلاف نسل کش عزائم کی عکاسی کر رہی ہے جس سے نمٹنا صرف فسلطینیوں کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے!