جب وقت گزر رہا ہوتا ہے اس وقت اس کی آہستہ رو حرکت کا احساس تک نہیں ہو پاتا ۔جیسے پیٹھ پیچھے سے بلی اپنے پنجوں کے بل گزرے تو صحن میں موجود بندے کو احساس تک نہ ہونے پائے۔مگر جب وقت گزر جاتا ہے گویا سرسے پانی گزر جائے یا پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزرے تو چنداں احساس نہیں ہو پاتا۔ وقت کی رفتار اسی طرح دھوکہ دینے والی ہے ۔مگر ایک بات سوچنے کے قابل ضرور ہے کہ یہ وقت گزر رہاہے کہ ہم گزر رہے ہیں ۔اس کا جواب آج تک کسی کے پاس نقل کرکے بھی موجود نہ ہو سکا۔” کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے عدم ۔ آ رہاہوں کہ جا رہا ہوں میں “۔زندان میں عمر قید کے مجرم اندر بیٹھے بیٹھے گزر رہے ہوتے ہیں ۔وقت ان کے سر کے کالے بالوں میں سفید برش کے سٹروک لگا دیتا ہے۔اگر بالفرض قید خانہ کے باہر وقت گزر نہ بھی رہا ہو تو ہم اپنے اندر گزر رہے ہوتے ہیں لمحہ لمحہ بار بار او رہر بار یہی عالم ہوتا ہے۔مگر وقت باہر بھی گزر جاتا ہے او راندر بھی ۔باہر وقت کے گزرنے کا پتا واقعات سے ہوتا ہے ۔ روز جو واقعات ہوتے ہیں جو دوسرے دن نہیں ہوتے یا گذشتہ روز ہونے والا آج نہیں ہوتا تو اس سے پتا چلتا ہے کہ وقت گزر گیا ۔ ہمارا بچپن تھا تو وقت گزر رہا تھا مگر ہمیں احساس نہیں تھا۔ پھر وقت کا گزرنا ہمارے لئے ایسا تھا کہ مین شاہراہ پر کوئی بڑی گاڑی جھپاک سے گزر جائے ۔کوئی خاص بات نہ تھی ۔ مگر عمر کے اس موجودہ دوسرے حصے میں آن کر احساس زیادہ ہو رہا ہے کہ وقت تو گزر گیا ۔پھر وقت کا وہ حصہ جس کا احساس ہمیں اس وقت ماضی میں ہونا چاہئے تھااب ہو رہا ہے۔مگر اب کیا ہو سکتا ہے۔جب چڑیاں کھیت چُگ جائیں تو پیچھے مڑ کر دیکھنے سے کیا حاصل ہوگا۔ سوائے ندامت اور پشیمانی کے اور کیا ۔ہاں مگر بعض کو وقت کے گزر جانے پر فخر ہے او ررہے گا۔ اپنا ماضی شاندار اور درخشاں نظر آتا ہے۔اس پر پشیمانی کے کچھ آثا رنہیں ہوتے۔بقول ِ فیض ” دامن پہ ہر اک داغ ہے بجز داغِ ندامت“۔جس کو صدیا ںکہتے ہیں وہ حقیقت میں پل دو پل ہوتے ہیں ۔اس سے زیادہ سینکڑوں سالوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے
۔بلکہ فلسفی تو کہتے کہ اس پوری کائنات کی عمر بس ایک پل ہے جو ابھی گزرا ہی نہیں ۔بلکہ غالب نے کہا ”ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد۔ عالم تمام حلقہ ¿ دامِ خیال ہے “۔پھر ایک اور شعر میں فرمایا ” یک نظر بیش نہیں فرصتِ ہستی غافل ۔ گرمی ¿ بزم ہے اک رقصِ شرر ہونے تک“ وہ تو فرماتے ہیں کہ جیسے چنگاری نکلتے ہی غائب ہو جاتی ہے اسی طرح پوری کائنات کی عمر اس مثال پر ہے ۔ابھی کل کی بات ہے کہ ہم ایک ڈنڈی کے ذریعے گلیوں میں پرانے گول ٹائر کو بھگاتے تھے۔ کون کون سے کھیل تھے جو ہم کھیلتے تھے مگر سب کچھ اب کہا ںہے سب خاک ہوا ۔ وہی کھیل اب کے بچے کھیلتے ہیں او رہم ان کو دیکھتے رہ جاتے ہیں ۔ محسوس ہوتا ہے کہ ” میں خود کو دیکھ رہاہو ںفسانہ ہوتے ہوئے“۔ کل کو ہمارا نام ونشان بھی نہ ہوگا مگر ان بچوں کے آگے ان کے بچے گلیوں میں ڈنڈی سے ٹائر گھما کر دوڑتے بھاگتے ہوں گے‘مقصد یہ ہوا کہ چیزیں جہاں سے چلتی ہیں وہیں دوبارہ آکر اختتام پذیر ہو جاتی ہیں۔وائٹ بورڈ پر مارکر سے دائرہ کھینچیں تو جہاں آپ نے مارکر رکھا اسی پوائنٹ پر مارکر آکر رکے گا او راسی نقطہ کے اوپر اپنا سفر اختتام کرے تو دائرہ مکمل ہوگا۔ یہی اس زندگی کا خلاصہ ہے او رون لائنر ہے کہ ہر چیز اپنے مدار کے گرد گھوم رہی ہے۔