زراعت کا مستقبل 

جب ہم سکول میں پڑھتے تھے تو ہم سبق یا د کر تے ہوئے دہراتے تھے پاکستان زرعی ملک ہے جب ہم نے عملی زند گی میں قدم رکھا تو ہم نے اپنی آنکھو ں سے دیکھا کہ پا کستان آلو ، پیا ز ، ٹما ٹر اور گندم سے لے کر دودھ اور گوشت تک ہر چیز بیرونی مما لک سے درآمد کر تا ہے‘ اپنی زرعی پیداوار سے مو لی ، گا جر بھی برآمد نہیںکر تا ہم نے اپنے پو توں اور پو تیوں کی کتا بوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا تو اس میں اب بھی پرانا سبق مو جو د ہے ہم حیران ہوئے کہ ٹیکسٹ بک بورڈ والوں کو اتنی بڑی حقیقت کا اب تک علم نہیں‘ ہم اس الجھن میں مبتلا تھے کہ اخبار آگیا‘ اخبار کی شہ سرخی ہے ” سرسبز پا کستان کے لئے پہلا قدم “ ہماری خو شی کی انتہا نہ رہی الجھن بھی دور ہو گئی ہم نے شکر ادا کیا یہ اُس سیمینار کی خبر ہے جس میں وزیر اعظم اور آرمی چیف نے مل کر” سرسبز پا کستان کے لئے پہلے قدم “کا افتتاح کیا غریب اور ان پڑھ عوام کی سہو لت کے لئے اس کا آسان نا م گرین پاکستان انی شے ٹیو (GPI) رکھا گیا ہے یہ حکومت اور پا ک فو ج کے ایک بڑے منصو بے کا حصہ ہے جس کا نا م سر ما یہ کاری میں سہو لت کا ری ہے‘ ابلا غ میں آسا نی کے لئے اس کو سپیشل انوسٹمنٹ فیسی لی ٹیشن کونسل (SIFC) لکھا جا تا ہے اس سیمینار کے مقررین نے اعلا ن کیا کہ اب پا کستان کو دنیا کی کوئی طاقت ترقی سے نہیں روک سکتی‘ ساتھ ہی وزیر اعظم نے قوم کو بتا یا کہ ایک ماہ بعد ہماری حکومت نہیں رہے گی ان منصو بوںکو آنے والی حکومتیں سنبھا لیںگی ‘مو جو دہ زما نے کے خطرات میں بڑا خطرہ غذائی قلت کا خطرہ ہے ‘اس کو دشمنوں کی زبان میں ”فوڈ ان سیکیورٹی“ کہا جا تا ہے جو ہماری سمجھ میں نہیں آتا ‘پا لیسی بنا نے والوں کا اس پر اتفاق ہے کہ پا لیسی عوام کی سمجھ میں نہیں آنی چاہئے‘ 1946ءمیں متحدہ ہندوستان میں چھوٹے کاشتکاروں کو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ شہر کے تا جر گاﺅں آکر ان کی زمینیں خرید لیتے تھے کا شتکاروں کے نما ئندوں نے بڑی سوچ بچار کے بعد مشرقی پنجاب کی اسمبلی سے ایک قانون منظور کروایا جس کی وجہ سے چھوٹے کاشتکاروں کے ساتھ بڑے زمیندار وں کی زمینیں بھی تجارت پیشہ لو گوں کے ہا تھوں میں جا کر ضا ئع ہونے سے بچ گئیں آج زرعی پیداوار کے لئے زمین وافر مقدار میں دستیاب ہے ‘ اگر اعداد و شمار پر ایک نظر ڈالی جا ئے تو ہاﺅسنگ کالونیوں ، اور سرکاری عمارتوں کی وجہ سے گزشتہ 50سالوں میں ہماری زرعی زمینوں کا 45فیصد ضا ئع ہو گیا ہے‘ زیر کاشت رقبے کا 64فیصد جاگیر داروں کے قبضے میں ہے جو آبادی کے 4فیصد سے بھی کم ہے‘ ہماری مجمو عی قومی پیداوار (GDP) کا 18فیصد زرعی شعبے سے آتا ہے 1962ءمیں زرعی اصلا حا ت منظور کی گئیں جن پر عمل نہیں ہوا‘ 1972ءمیں پھر زرعی اصلاحات لائی گئیں ان کےخلا ف عدالت سے حکم امتنا عی حا صل کیا گیا‘ چنا نچہ زرعی شعبہ سر نہ اٹھا سکا زراعت کا مستقبل زمینات سے وابستہ ہے اب بھی وقت ہے کہ زرعی زمینوں کو غیر زرعی مقاصد کےلئے ضا ئع کرنے پر پا بندی لگائی جا ئے اور عدالتوں کو قانون کا پا بند کیا جا ئے‘ سرسبز پا کستان کے پہلے قدم کو کامیاب بنا نے کےلئے دوست ملک چین کے تجربات سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے ‘ہمیں اس بات کی خو شی ہے کہ سر سبز پا کستان کی طرف پہلا قدم اٹھا یا گیا چینیوں کا مقولہ ہے کہ ہزار میل کا سفر ایک قدم سے شروع ہوتا ہے۔