تاریخ کی کتب سے ایک ورق

1949میں ما ﺅزے تنگ اور ان کے کامریڈوں نے جب انقلاب چین کو کامیابی سے ہم کنار کیا تو پھر ایک لمبے عرصے تک انہوں نے دنیا کے کئی ممالک کے لئے اپنے دروازے بند رکھے ‘خصوصاً امریکا اور اس کے حواری ممالک کے لئے ‘جس پر ان کے دشمن ممالک نے ان پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے چین کے ارد گرد آھنی دروازہ لگا رکھا ہے پر ماﺅ زے تنگ کو اس بات کا پورا ادراک تھا کہ اگر انہوں نے انقلاب چین کے بعد کچھ عرصے کے اندر اس کی بنیادوں کو استوار نہ کیا تو کمیونزم کے دشمن سازشوں سے اس کے انقلاب کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے نہ دیں گے وہ چند برسوں تک انقلاب چین کو مضبوط کرنا چاہتے تھے وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ کچھ وقت تک چین اپنے آپ کو کسی بھی عالمی تنازعے میں بالکل نہ پھنسائے اور اپنی تمام تر انرجی کو اپنی معشیت مضبوط کرنے اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کرنے کے لئے وقف کرے جب ہم 1995 ءمیں چین گئے تو چینی حکام نے ہمیں بتلایا کہ چین 2014 ءتک اپنی تمام تر توجہ اپنے ترقیاتی کاموں کی طرف مبذول رکھے گا امریکہ نے2014 ءتک لاکھ کوشش کی کہ وہ اسے مشتعل کر کے کسی عالمی تنازعے میں ملوث کرے پر چین نے اس ضمن کافی ثابت قدمی دکھائی پھر جب2014ءگزر گیا تو چینی قیادت نے دھیرے دھیرے امریکہ کو ان معاملات میں آنکھیں دکھانا شروع کیں کہ جن میں وہ سمجھتی تھی کہ امریکہ زیادتی کا مرتکب ہوا ہے 1995ءمیں جب ہم بیجنگ میں تھے تو ہم نے ماﺅ زے تنگ کے لڑکے سے ملاقات کی خواہش کی ہمیں بتلایا گیا کہ وہ بیجنگ کے ایک عام علاقے میں رہائش پذیرہے اس کا ذکر ہم نے اس لئے کیا کہ اگر ماﺅزے تنگ چاہتے تو وہ اس کو اپنا جانشین بنا سکتے تھے پر وہ موروثی سیاست کے خلاف تھے اور کچھ اسی قسم کے خیالات ایران کے بے تاج بادشاہ امام خمینی بھی رکھتے تھے ان کا بڑا صاحبزادہ نہ صرف یہ کہ بہت عالم و فاضل تھا وہ بڑا متقی اور پرہیزگار بھی تھا ایک دن امام خمینی کو ان کے بعض رفقائے کار نے یہ مشورہ دیا کہ وہ ان کو آیت اللہ کا منصب کیوں نہیں دلاتے تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے اسے ایک دن قضا نماز پڑھتے دیکھا ہے امام خمینی کے اس بیٹے کا جب انتقال ہوا تو اس کے بینک بیلنس میں پاکستانی کرنسی کے مطابق صرف 48 روپے پڑے تھے ‘کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نہ ماﺅ زے تنگ اور نہ ہی امام خمینی موروثی سیاست کے قائل تھے اور یہ دونوں رہنما تاریخ عالم کے عظیم رہنما تصور کئے جاتے ہیں۔