منافرت کا مقابلہ 

دنیا ’اظہار رائے کی آزادی‘ چاہتی تھی جس کے لئے طویل جدوجہد کی گئی اور ’اظہار رائے کی آزادی‘ ملنے کے بعد معلوم ہوا کہ اِس آزادی کی بنیاد میں تخریب پوشیدہ ہے اور اب دنیا ’اظہار رائے‘ کو تہذہب و شائستگی سے روشناس دیکھنا چاہتی ہے جس پر احترام کا عنصر غالب ہو۔ رواں ہفتے کی غیرمعمولی عالمی خبر یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی ’انسانی حقوق کونسل‘ نے ’مذہبی منافرت‘ کی مذمت کرنے کی قرارداد منظور کی جو اُن تمام لوگوں کی فتح ہے جو دنیا میں رواداری اور باہمی احترام پر یقین رکھتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ پاکستان نے اس تحریک کو پیش کیا جس کی حمایت کی گئی اور مذکورہ کونسل کے 47 میں سے 28 اراکین نے اِس قرارداد کی حمایت کی۔ قرارداد میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مذہبی منافرت پر رپورٹ شائع کرے اور تنظیم کے رکن ممالک سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنے ہاں ’آزادی¿ اظہار‘ سے متعلق قوانین پر نظر ثانی کریں تاکہ ”مذہبی منافرت کی روک تھام کی جا سکے اور مذہبی منافرت پھیلانے والوں کے خلاف مقدمات چلائے جائیں اور اِس حوالے سے پائی جانے والی خامیوں کا ازالہ ہو“ خوش آئند ہے کہ چین‘ یوکرین‘ لاطینی امریکہ‘ افریقی ممالک اور بھارت سمیت کئی غیر مسلم ممالک نے بھی پاکستان کی پیش کردہ قرارداد کی حمایت کی ہے جبکہ بدقسمتی سے مغربی بلاک یعنی یورپ اور امریکہ نے اس قرارداد کو روکنے کی پوری کوشش کی اور اپنی مخالفت کا جواز پیش کرنے کے لئے اظہار رائے کی آزادی کا معروف بہانہ استعمال کیا لیکن مغرب کی ہر دلیل کھوکھلی ہے۔ امریکہ اور اِس کے ہم خیال یورپی ممالک جس ’آزادی¿ اظہار‘ کی وکالت کر رہے ہیں اُس میں لوگوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی کوئی اہمیت نہیں۔ پاکستان سمیت دنیا کے باشعور ممالک ’آزادی¿ اظہار‘ کے مخالف نہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ اِس آزادی¿ اظہار کے ذریعے کسی کی بھی دل شکنی نہ ہو اور کسی بھی مذہب کے مقدسات یا رنگ و نسل یا زبان کی بنیاد پر توہین نہ کی جائے۔ آزادی¿ اظہار کے علمبردار یورپی ممالک کے رہنماو¿ں کو اس بات کا احساس نہیں کہ جب اُن کے ہاں قرآن یا اسلام کے دیگر مقدسات کی توہین ہوتی ہے تو اِس سے پیدا ہونے والی اشتعال انگیزی اور نفرت اُن کے لئے کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اور اِس سے پوری دنیا کا امن و امان کس طرح متاثر ہوتا ہے اگرچہ گلوبل ساو¿تھ میں بہت سی غیر مسلم ریاستیں مذہبی منافرت کو غیر قانونی قرار دینے کی کوششوں کو سراہتی ہیں لیکن مغربی بلاک اسلام کو بدنام کرنے والوں کی پشت پناہی کرتا ہے اور درحقیقت مسلمانوں کے خلاف تشدد کی بنیاد رکھنے کے لئے آزادی اظہار کے تعلیمی و قابل بحث تصورات پر سختی سے قائم ہیں۔ جس طرح ہولوکاسٹ پر سوال اٹھانا بہت سے یورپی معاشروں میں جرم ہے بالکل اِسی طرح اور اِسی جواز پر ’اسلام کے مقدسات کے حوالے سے بھی مسلم معاشروں نے حدود معین کر رکھی ہیں اور ایسی سرخ لکیروں (حد) کو کسی بھی صورت عبور نہیں کرنا چاہئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جب اسلام اور یہودیت کو بدنام کرنے کی بات آتی ہے تو بہت سے یورپی معاشرے اپنے صدیوں پرانے تعصبات پر جمے نظر آتے ہیں۔ ہولوکاسٹ کسی یورپی ریاست کی طرف سے نسلی اور مذہبی منافرت کی تازہ ترین مثال ہے لیکن وقت کی دھند اور ہسپانوی ریکونکوسٹا کے بعد کی ہولناکیوں‘ جس میں مسلمانوں اور یہودیوں کا زبردستی مذہب تبدیل کیا گیا اور بعد میں انہیں جزیرہ نما آئبیریا سے نکال دیا گیا تھا‘ انتہائی عدم رواداری کی دلخراش و ناقابل یقین کہانیاں ہیں۔ یہ گھناو¿نے تعصبات آج بھی مغربی ممالک میں زندہ ہیں‘ جو آزادی اظہار کی آڑ لے رہے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب مغربی ممالک کو دینا چاہئے اور دیگر مذاہب و ثقافتوں کا احترام کرنے کو مغربی ممالک بھی ضروری سمجھتے ہیں تو اُنہیں اپنے ہاں قوانین پر نظرثانی کرنا ہوگی تاکہ کسی بھی شخص یا تنظیم کو‘ کسی بھی نام سے اور کسی بھی مذہب کے مقدسات پر حملوں کی جسارت نہ ہو۔