مستقبل کے مشکل سفر کو مد نظر رکھتے ہوئے کاروباری برادری سمجھتی ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کے لئے آئندہ 9 ماہ کے دوران 3 ارب ڈالر کی فراہمی (اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ) سے ملک میں طویل عرصے سے موجود معاشی بے یقینی اور عدم استحکام کا خاتمہ ہوگا۔ اِس سلسلے میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کی جانب سے جاری ہونے والے ’پراُمید پیغام‘ میں کہا گیا کہ ”ملک کی معاشی تاریخ کے موجودہ نازک موڑ پر ’آئی ایم ایف پروگرام‘ حاصل کرنا ناگزیر تھا اور صنعت و تجارت کے حوالے سے اس کے سخت ہونے کے باوجود تاجر برادری سمجھتی ہے کہ قوم کے وسیع تر مفاد میں ’آئی ایم ایف بیل آو¿ٹ پروگرام‘ اچھا اقدام ہے جس کا خیر مقدم کیا جاتا ہے اور اِس بات کی بھی اُمید ہے کہ اِس قرض کی منظوری کے بعد دوطرفہ‘ کثیرالجہتی اور عالمی ادارہ جاتی ذرائع سے بیرونی فنڈنگ کی آمد میں اضافہ ہوگا“ اِسی قسم کے ملتے جلتے تاثرات عوامی حلقوں کے بھی ہیں اور سبھی اِس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ 3 ارب روپے زیادہ بڑی رقم نہیں ہے لیکن اگر اِسے معاشی اصلاح کا موقع سمجھا جائے تو بہت کچھ تبدیل (درست) ہو سکتا ہے لیکن اِس کے لئے حکومت کی معاشی ٹیم کو بیرونی اکاونٹس دور اندیشی اور فعال طریقے سے مینیج کرنا ہوں گے اور میکرو اکنامک فیصلہ سازی میں ہر قسم کی تاخیر اور التوا¿ سے بچنا بھی ہوگا۔ملک کے اعلیٰ ترین کاروباری و صنعتی اداروں کی نمائندہ تنظیم (چیمبر) کے سربراہ کا حالیہ بیان کہ کاروباری برادری آئی ایم ایف اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے بعد کی صورتحال کے حوالے سے زیادہ فکر مند ہے اور معیشت‘ صنعت و تجارت کے لئے عارضی ریلیف کی بجائے معاشی پالیسیوں میں درمیانی سے طویل مدتی مستقل مزاجی کی سوچ کاروباری برادری کے قومی مفاد اور قومی معیشت کے لئے احترام کی عکاس ہے اپنی جگہ اہم ہے تاہم یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ حکومت کب اور کس طرح کاروباری برادری کو ’آئی ایم ایف‘ کے ساتھ کئے گئے اپنے وعدوں اور ان وعدوں کے میکرو اکنامک پالیسی پر پڑھنے والے مضمرات پر اعتماد میں لینے کا ارادہ رکھتی ہے اور حکومت کے پاس فی الوقت معاشی استحکام لانے کے لئے لائحہ عمل اگر ہے تو اُس کی تفصیلات کیا ہیں؟آئی ایم ایف کی شرائط خاص طور پر بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق شرط کو تسلیم کرنے سے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ یقینی ہے جس کے نتیجے میں صنعتوں کی پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس کے علاو¿ہ خدشہ یہ بھی ہے کہ درآمدات پر عائد پابندیاں اٹھانے سے جو کہ آئی ایم ایف کی جانب سے لازمی قرار دیا گیا ہے‘ اس کی وجہ سے ڈالر کی قدر پر ایک بار پھر دباو¿ بڑھے گا اور ڈالر کی قیمت جو وقتی طور پر کم ہوئی ہے ’تین سو روپے‘ کی حد عبور کر جائے گی۔ اِس لئے صنعتکار حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ معاشی اِستحکام کے موجودہ نادر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹھوس اقدامات کرے جن سے عام آدمی کی معیشت بہتر ہو اور عام آدمی پر ٹیکسوںکا بوجھ بڑھانے کی بجائے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے قومی آمدنی بڑھانے کےلئے برآمدی صنعت کو فوری حکومتی سہارے کی بھی اپنی جگہ ضرورت ہے کاروباری طبقات آئی ایم ایف پروگرام سے حکومت کی مالی حیثیت بہتر ہونے کے حوالے سے جو اُمیدیں رکھتے ہیں اُن میں عوام کےلئے ریلیف سرفہرست مطالبہ ہے۔