بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی خواتین کھلاڑیوں (ایتھلیٹس) کی کارکردگی کبھی بھی بہتر نہیں رہی لیکن حالیہ دنوں میں ’مثبت تبدیلی‘ دیکھنے میں آئی ہے جس بڑی مثال فیفا ویمنز ورلڈ کپ 2023ءہے جس کی میزبانی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بیس جولائی سے بیس اگست تک مشترکہ طور پر کریں گے۔ یہ ٹورنامنٹ 32 ٹیموں پر مشتمل فارمیٹ کے مطابق کھیلا جائے گا جس کے لئے گیارہ کروڑ (110ملین) ڈالرز کی انعامی رقم رکھی گئی ہے‘ جو ورلڈ کپ کے پچھلے ایڈیشن سے زیادہ ہے۔ گزشتہ ورلڈ کپ میں 3 کروڑ (30 ملین) ڈالرز رکھے گئے تھے‘ جس کا موجودہ حجم تقریبا چار گنا زیادہ ہے۔ عالمی کھیلوں میں اہم تبدیلیاں ہو رہی ہیں لیکن بدقسمتی سے تبدیلی کی اِن ہواو¿ں کا رخ پاکستان کی طرف نہیں اور نہ ہی پاکستان میں خواتین کے کھیلوں پر خاطرخواہ توجہ دی جا رہی ہے اور خواتین کے کھیلوں پر اِس کا بہت کم یا کوئی اثر نہیں پڑا ہے بلکہ پاکستانی کھلاڑیوں بالخصوص خواتین اِیتھلیٹس کے لئے کھیل کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ خواتین کی کھیلوں میں شرکت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ کھیلوں سے متعلق فیصلہ سازوں کی جانب سے بالعموم اور خاص طور پر خواتین کی کھیلوں میں شرکت کے حوالے سے مزید اقدامات کی ضرورت ہے بد قسمتی سے صورتحال اس کے برعکس ہے ۔جس سے متعلق تازہ ترین واقعات یہ سامنے آئے ہیں کہ ملک میں کھیلوں کے فروغ کے لئے تشکیل دیئے گئے ادارے پاکستان سپورٹس بورڈ (پی سی بی) نے پاکستان فٹ بال ٹیم کو عالمی مقابلوں میں شرکت کا اجازت نامہ (این او سی) دینے سے انکار کر دیا ہے۔ فٹ بال ٹیم کو پندرہ اور اٹھارہ جولائی کو سنگاپور میں میچز کھیلنے تھے۔ ’پی ایس بی‘ نے پاکستان کے فٹ بال حکام کو بتایا کہ وہ ’این او سی‘ کے لئے درخواست دینے میں دیر کر چکے ہیں۔ بورڈ کے غیر مددگار رویئے کی وجہ سے خواتین فٹ بالرز کی ٹیم بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت نہیں کر سکی جس سے اُنہیں کھیل کا تجربہ حاصل ہوتا اور یوں ایک نادر موقع گنوا دیا گیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ خواتین کے لئے عالمی کھیلوں کے مقابلے و مواقع پہلے ہی کم ہیں اور جب اِس طرح کے روئیوں کا اظہار کیا جاتا ہے تو یہ مواقع مزید کم ہو جاتے ہیں جبکہ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ خواتین ہوں یا مرد کھلاڑی کسی بھی عالمی مقابلے میں اِن کی انفرادی یا اجتماعی حیثیت سے (بطور ٹیم) شرکت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ کھیلوں سے متعلق فیصلہ سازوں کو اپنے رویئے میں مثبت تبدیلی لانے کی ضرورت ہوگی بصورت دیگر بین الاقوامی کھیلوں میں پاکستان کی کارکردگی کے گراف میں جاری کمی کو روکا نہیں جا سکے گا۔ انہیں خواتین کے کھیلوں کو فروغ دینے کے طریقے اور ذرائع بھی وضع کرنے چاہئیں۔ ہمارے پاس ان گنت مثالیں ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ہماری خواتین ایتھلیٹس کتنی باصلاحیت ہیں۔ پاکستانی خواتین اب جسمانی مشقت والے کھیلوں میں بھی ریکارڈ بنا رہی ہیں۔ چند ہفتے قبل دو کوہ پیما نائلہ کیانی اور ثمینہ بیگ نے دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے ایک ’نانگا پربت‘ کو سر کیا جو اپنی جگہ منفرد اعزاز ہے۔ اِس کے ایک ہفتے بعد بارہ سالہ لڑکی عائشہ ایاز نے انٹرنیشنل تائیکوانڈو چیمپیئن شپ میں تین تمغے جیتے اور پھر بھی ’سپورٹس بورڈ‘ نے خواتین کھلاڑیوں کی مدد کےلئے کوئی معنی خیز قدم نہیں اٹھایا۔ اِس طرح کے اقدامات قومی کھلاڑیوں کے کیریئر تباہ کرنے کے ساتھ اِن کی حوصلہ شکنی بھی کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں خواتین کی کھیلوں کی شرکت کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور خواتین کے مقابلے بھی یکساں اہمیت کے حامل ہیں جیسا کہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹینس سٹارز یو ایس اوپن‘ ومبلڈن اور فرنچ اوپن جیسے بڑے مقابلوں میں مرد کھلاڑیوں کے برابر انعامی رقم ملتی ہے۔ رواں ہفتے کے اوائل میں امریکہ کی ایلیسن کارپوز نے خواتین گالف کی تاریخ میں انعام کی سب سے بڑی رقم حاصل کی جب انہوں نے مشہور پیبل بیچ گالف لنکس میں یو ایس اوپن جیت کر ’2 ملین ڈالر‘ حاصل کئے۔