چینی حکومت کا بہترین اقدام

چینی حکومت نے پاکستان کے تمام مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کو وفد کی شکل میں چین کے مختلف علاقوں کا دورہ کرنے کی جو دعوت دی ہے یہ ایک اچھا فیصلہ ہے اس سے چین کو ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ علما کرام اپنی آنکھوں سے وہاں بسنے والے مسلمانوں کے حالات زندگی سے واقف ہو جائیں گے اور امریکہ کا چین کے خلاف وہ زہریلا پراپیگنڈہ زائل ہو جائے گا کہ چین میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے یا وہاں ان کو کوئی مذہبی آزادی نہیں ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ماضی میں بھی ایک مرتبہ کہ جب ماﺅزے تنگ اور چو این لائی وہاں برسر اقتدار تھے تو اسی قسم کے ایک علما کرام کا وفد وطن عزیز سے چین کی دعوت پر بیجنگ گیا تھا جس سے امریکہ کو سخت تکلیف ہوئی تھی کیونکہ اس دورے سے امریکہ کا یہ پراپیگنڈہ اپنی موت آپ مر گیا تھا کہ چین میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہورہا ہے ۔ چین نے دنیا بھر کے مسلمانوں اور تیسری دنیا کے باسیوں کا دل جیتنے کیلئے جو خارجہ پالیسی اپنا رکھی ہے اس سے اس کی لیڈرشپ کی دانش سیاسی فہم اور دور اندیشی کا اندازہ ہوتا ہے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ چین اور پاکستان قدرتی آفات کی نگرانی کیلئے تحقیقی مرکز قائم کریں گے ۔یہ مسئلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے اور ہمارے متعلقہ محکمہ کو اس فیلڈ میں چین میں ہونے والی ریسرچ سے استفادہ کرنے کا موقع ملے گا۔ساون کا مہینہ شروع ہوگیا ہے جس میںشدید بارشوں کی پیشگوئی ہے اور ساون کے پہلے دن پشاو رسمیت ملک کے اکثر علاقوں میں بارشیں ہوئی ہیں۔ سیلابی بارشیں اپنے ساتھ کئی مسائل بھی لاتی ہیں اور اس میں سارا قصور ہمارا اپنا ہے کہ ہم نے اپنی آبادیوں نکاسی آب پر خصوصی توجہ نہیں دی ہے اس لئے تو اربن فلڈنگ یعنی شہری علاقوں میں سیلابوں کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے ۔اب تذکرہ کرتے ہیں کچھ دیگر اہم امور کا۔معیاری تعلیم کے بغیر شاید ہی کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے ۔اس وقت پاکستان کا تعلیمی نظام دنیا کے 195 ممالک میں سے 165ویں نمبر پر ہے، جہاں بچے کو تین سال کی عمر میں سکول داخل کروا دیا جاتا ہے اور اس پہ رٹا سسٹم اور ہوم ورک کے نام پہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے، پہلی جماعت کے بچے کے بیگ کا وزن اس کے اپنے مجموعی وزن سے زیادہ ہوتا ہے۔دنیا میں تعلیمی نظام کی رینکنگ کرنے والا بین الاقوامی ادارہ جو ریاضی ، سائنس، انگلش وغیرہ کی بنیاد پر بچوں کے تعلیمی حالات کا جائزہ لیتا ہے اور رینکنگ جاری کرتا ہے۔ اس ٹیسٹ میں فن لینڈ مسلسل تین سال سے پہلی پوزیشن پر براجمان ہے اور دیگر میں جاپان کوریا، ہانگ کانگ اور سنگاپور کا نام شامل ہیں۔فن لینڈ میں بچوں کا سکول سات سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے اور سکول کا روز کا دورانیہ چار سے پانچ گھنٹے پہ محیط ہوتا ہے۔ دنیا کا سب سے کم دورانیہ کا تعلیمی سال بھی فن لینڈ کا ہے، جو 190 دن کا ہوتا ہے۔ اتنے کم دورانیہ میں بھی اتنے اچھے نتائج کی آخر کیا وجہ ہے؟فن لینڈ کے سکولوں میں ایک ہفتے میں چودہ سے تیس اسباق پڑھائے جاتے ہیں، جو ہر جماعت کے حساب سے ہوتے ہیں۔ چھوٹی جماعت کے طلبا کے لئے ان اسباق کی تعداد چودہ اور آٹھویں جماعت کو تیس اسباق تک پڑھائے جاتے ہیں۔ ہر کلاس کے بعد پندرہ منٹ کی بریک دی جاتی ہے اور بچوں کو کسی بھی قسم کا ہوم ورک نہیں دیا جاتا۔ بچوں کو تعلیم اس طریقے سے دی جاتی ہے کہ ان کی سوچنے کی صلاحیتوں کو جلا بخشی جائے۔پہلا تحریری امتحان بھی دس سال کی عمر کے بعد لیا جاتا ہے، وہ بھی پانچ مضامین میں ابتدائی دس سال کی تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے۔ سارے نظام تعلیم میں اساتذہ کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ وہاںپرائمری یا ہائی سکول ٹیچر بڑے سخت تحریری امتحان دے کر منتخب ہوتے ہیں۔اس بات کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ تمام امیدواروں میں اوسط دس فیصد ہی منتخب ہو پاتے ہیں۔ فن لینڈ کے معاشرے میں استاد کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کی تنخواہیں باقی تمام شعبوں سے کافی زیادہ ہوتی ہیں۔وہاں پرنوے فیصد سے زیادہ بچے سرکاری سکولز میں ہی پڑھتے ہیں، پرائیویٹ سکولز کے لیے بھی سرکاری سلیبس پڑھانا ضروری ہے۔ سکول میں بچوں کو ایک وقت کا کھانا مفت فراہم کیا جاتا ہے اور ہر انیس طلبا کے لئے ایک استاد مقرر ہوتا ہے۔ ہر سکول میں ایک ماہر نفسیات اور ایک ڈاکٹر کا ہونا لازم ہے۔ ہر ایک استاد، ہر سال تبدیل نہیں ہوتا بلکہ وہی استاد ایک لمبے عرصے تک ان ہی طلبا کو پڑھاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ طالب علم سے بہتر تعلق بنا پاتا ہے اور ان کی کار کردگی نوٹ کرتا ہے اور ان کی بہتری کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ اب اس آئینے میں اپنے تعلیمی نظام کو دیکھ لیں تو سب کچھ واضح ہوجاتا ہے ۔ہمارے ملک میں جہاں تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں وہاں سب سے کم بجٹ تعلیم کے لیے ہی رکھا جاتا ہے۔ ایک وقت میں ملک میں مختلف اقسام کے تعلیمی نظام چل رہے ہیں۔ اگر ملک کا تعلیمی نظام بہتر کرنا ہے تو، تعلیم پر خرچ کرنا ہو گا اور اساتذہ کی تربیت اور بے جا کتابی بوجھ، رٹا سسٹم اور نقل سسٹم کو ختم کرناہو گا ۔نئے سکول، کالج بنانے ہوں گے تعلیم کے معیار اور تحقیقی معیار کو بہتر بنانا ہو گا تا کہ ہم ایک اچھی، ہنر مند نسل پروان چڑھا سکیں جس سے دنیا میں ہمیں بھی کوئی با عزت مقام حاصل ہو۔اس کیلئے ضروری ہے کہ تعلیم کو اولین ترجیح دی جائے اور ملکی بجٹ کا بڑا حصہ تعلیم کیلئے مختص ہو۔ کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم کا شعبہ وہ بنیاد ہے جس پر تمام شعبہ ہائے زندگی کی عمارت استوار ہے ۔ اگر یہ بنیاد مضبوط ہے تو یہ عمارت مضبوط ہوگی اور اگر یہ بنیاد ہی کمزور ہے تو کیسے ممکن ہے کہ اس پر استوار دیگر شعبہ ہائے زندگی کی عمارت مضبوط ہو۔ اس لئے اگر اہم نے موجودہ درپیش مشکلات اور مسائل سے نکلنا ہے تو اولین مرحلے میں تعلیم کو ترجیح قرار دیتے ہوئے اس پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔