منجانب ٹریفک پولیس 

کس کس کی منت کریں۔یہ تو ہر بندے کی اپنے مزاج کی بات ہے ،جو جس طرح چاہے ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی کرتا رہے تو اسے کوئی کیسے روک سکتا ہے ۔ٹریفک پولیس نے اپنی سی بہت کوشش کر لی مگر ہمارے بھائی بند ہیں کہ مانتے ہی نہیں نہ کسی پابندی کو دل سے قبول کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کے آکھے ویکھے میں ہیں ۔کتنی ہی میٹنگز ہوئیں ، سر جوڑ جوڑکر فیصلے کئے گئے مگر سب کے سب بے اثر بنا دئیے گئے۔۔اب انھوں نے نئی حکمتِ عملی اختیار کی ہے کہ زیادہ تر رکشے جو ان کے ہاتھ چڑھے ان کے پیچھے ٹریفک کی نصیحتیں لکھی ہیں ۔جب حال یہ ہے تو یہ سڑک پر جاتے ہوئے اپنے ہاتھ کو کیا پہچانیں گے۔الٹے سیدھے لڑھکتے ہوئے جیسی کوئی چٹان لینڈ سلائیڈنگ میں پہاڑ سے ٹوٹ کر سڑک کی طرف کسی گاڑی کو کچلنے کے لئے آ رہی ہو ۔ ایک رکشہ پر لکھا تھا کہ ڈبل اوورٹیک نہ کریں ۔واہ واہ واہ یہ تو تین تین گاڑیوں کو اوورٹیک کرتے ہیں او رنہ ڈرتے نہ جھجکتے ہیں ۔گزرے دنوں میں ہم غلط جاتے ہوئے ٹریفک سپاہی کو دور سے دیکھ کر واپس مڑ جاتے تھے ۔مگر اب آبادی اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ ہم ٹریفک وردی والے کو دیکھ کر بھی سیدھا جاتے رہتے ہیں۔ کیونکہ ہمیںمعلوم ہے کہ وہ اگر مجھے پکڑکر چالان کرنے کو روکے گا تو مجھ سے پہلے جاتی ہوئی گاڑی کو اول رکنے کا اشارہ کرے گا۔اس دوران میں بغل تلے سے میں نکل جا¶ں گا۔ اب ٹریفک والے بھی کیا کریں انسانوں کا ہجوم اس طرح ہے کہ ایسے میں لاقانونیت کوفائدہ مل جاتا ہے۔ایک رکشہ پر لکھا تھا کہ بچوں کے موٹر سائیکل چلانے پر پابندی ہے ۔مگر کیاخاک پابندی ہے او رکیا خاک اس پر شہری عمل کریں گے کہ وہ خود اپنے بچوں کو موٹر سائیکل حوالے کر دیتے ہیں کہ جا¶ بائیک چلانے کی پریکٹس کر و ۔اگر ٹریفک لائسنس اٹھارہ سال کے بندے کو ملے گا تو بچے تو ابھی بالغ نہیں ہوئے ان کو کیوں بائیک چلانے دیا جاتا ہے ۔کیا ماں باپ کو علم نہیں ہوتا ۔بچے چپکے سے بائیک نکال کر پیچھے ایک اوربچے کو بٹھا کر گلی میں سے مین سڑک پر اچانک سامنے آجاتے ہیں۔ بعض والد تو پیچھے بیٹھ کر بچے کو بائیک چلانا سکھلا رہے ہوتے ہیں ۔اس پر تو میںدیکھوں مجھے سخت غصہ بھی آتا ہے او رلاج آتی ہے کہ ہم کس طرف جار ہے ہیں۔ایک رکشہ پر لکھا تھا کہ اور ٹیک دائیں طرف سے کریں۔ خاک دائیں طرف سے کریں گے ۔اگر کوسٹر ہے وہ بائیک کو بائیں جانب سے اورٹیک کررہی ہے تاکہ سٹاپ پر رک کر سواریاں اٹھائے ۔بھلے بائیک پر میاں بیوی اور تین عدد بچے سوار ہوں ان کی بلا کو بھی پروا نہیں کہ ان کے ساتھ گاڑی ٹکرا سکتی ہے۔پھر بائیک والے کون سا لحاظ کرتے ہیں۔ وہ بھی تو سڑک کے انتہائی دائیں جانب جا رہے ہیں۔جہا ںصرف بھاری گاڑیوں کے جانے کا حق ہے وہاں یہ گھروالی کو بٹھا کر بجلی کی سی تیزی کے ساتھ موٹروے کے موڑ کے پاس جاتے ہیں۔حیران ہوں کہ ان کی پچھلی سواریاں بھی ان کو منع نہیں کرتیں کہ ایسا مت کرو یا اتنی برق رفتاری سے مت جا¶۔ایک رکشہ کی پُشت پر لکھا تھا تیز رفتاری منع ہے ۔شاید چونکہ پیٹھ پیچھے لکھا تھا اس لئے رکشے والے کو نظر نہیں آتا تھا یا پھر لکھتے وقت اس کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا ہوگا اس لئے اس کو اسی لئے سمجھ نہیں آیا ہوگا او روہ رکشہ کو ہوائی جہاز کی طرح چلا رہا تھا ۔آگے کوئی آ جائے کوئی بچہ کوئی بوڑھا کوئی خاتون وغیرہ ان کو پروا بھی نہ ہوگی اور یہ ان کو ٹھوکر مار کر بھاگ جائیں گے۔یہ بھی دیکھا کہ ہیلمٹ کی پابندی ضروری ہے ۔کون کہتا ہے کہ ضروری نہیں ۔مگراس بات کو اول تو کون پڑھے اور دوم کون پھر ا س پر عمل کرے۔ زیادہ تر بائیک سوار تو اس گرمی میں ہیلمٹ پہننا ہی جرم سمجھتے ہیں ۔کیوں نہ وہ تپش کے اس موسم میں ٹھنڈی ہوا کا لطف لیں او رمزے سے جاتے جائیں۔اصل میں ہمارے ہاں سزا کا تصور نہیں رہا ۔ بس جرمانہ ہوا اور جرمانہ جا کر داخل دفتر کیا او رجان چھوٹی ۔یہ تو کوئی سزا نہیں ۔ باہر کے ملکوں کی طرح ٹریفک کے جرم پر معمولی سا جرمانہ تو ہوگا مگر وہ قریب کے دفتر میں جمع نہیں کروانا۔ بلکہ سینکڑوں میل دور جاکر دوسرے شہر کے خاص ادارے میں داخل کرنا ہوگا۔ ہمارے ہاں ایسا نہیں۔سڑک کے ایک کنارے جرمانہ ہوا اور دوسرے کنارے کے بینک وغیرہ میں جمع کروایااو راپنا پنڈچھڑایااور گھر کو صحیح و سالم لوٹ آئے۔