پاکستان میں توانائی کے بڑھتے ہوئے بحران اور بجلی کے شدید شارٹ فال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات خوش آئند ہے کہ صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کے کوئلے کے وسیع ذخائر پر مشتمل فیلڈز کے بلاک VI میں لاکھوں سولر پینلز نصب کیے جانے والے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ کول فیلڈز 14 بلاکس میں تقسیم ہیں لیکن ان میں ابھی تک صرف بلاک I اور II میں کام شروع ہوا ہے۔ماہرین کاکہنا ہے کہ یہ پاکستان میںکسی ادارے کا سب سے بڑا اور واحد سولر پلانٹ ہوگا ۔اگر یہ منصوبہ مکمل ہو جاتا ہے تو اس منصوبے سے پاکستان کو 2030 تک اپنی توانائی کا 60 فیصد قابل تجدید ذرائع سے حاصل کرنے کا ہدف حاصل کرنے میں نمایاں مدد مل سکتی ہے۔ یہ خاص شمسی منصوبہ صحرائے تھر میں کوئلے کے جاری منصوبوں کے سائے میں بنایا جا رہا ہے۔ تھر کے کوئلے کے میدان 9,100 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہیں اور 175 بلین ٹن سے زیادہ لگنائٹ پر مشتمل ہے جن کاشمار دنیا کے سب سے بڑے اور سیع ذخائر میں ہوتاہے۔اس سولر پراجیکٹ کی پری فزیبلٹی سٹڈی پاور چائنا تعمیراتی گروپ نے مکمل کی ہے۔ اپریل 2023 میں اوریکل اور پاور چائنا کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق یہ دونوں کمپنیاں پروجیکٹ کے ضروری سروے کرنے میں مل کر کام کریں گی۔ معاہدے میں بلاک VI سے 250 کلومیٹر دورمشترکہ طور پر ایک گرین ہائیڈروجن پروڈکشن کی سہولت بھی دستیاب ہوگی۔معاہدے میں 1GW شمسی منصوبے کے لئے اوریکل کے ابتدائی تکنیکی منصوبے کی تفصیلات دی گئی ہیںجس میں تجویز کیا گیا ہے کہ اسے کان کنی کے مضافاتی علاقے کی زمین پر تیار کیا جائے گا جو تھر بلاک VI کے 25 فیصد سے بھی کم رقبے پر محیط ہوگا اور صحرائے تھر سے مکمل طور پر قابل تجدید توانائی سے بجلی پیدا کرے گا ۔جب کہ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سولر پلانٹ کو مستقبل میں کوئلے سے متعلق کسی بھی پروجیکٹ کے ممکنہ تعمیر اور اثر والے علاقے سے باہربھی لگایا جاسکے گا۔پاور چائنا کے ترجمان چینگ کیانگ کاکہنا ہے کہ کمپنی نے پاکستان میں ایک سولر اور 23 ہوا کے منصوبے مکمل کئے ہیں جب کہ تھر میں شمسی توانائی کامنصوبہ پاکستان میں توانائی کے بحران سے نمٹنے کی جانب ایک اور اہم اقدام ہے۔پاور چائنا کے ترجمان کاکہنا ہے کہ ہم ریگستان میں دیگر کان کنی کے کاموں کے ساتھ ساتھ پائپ لائن میں موجود ریلوے لائن کے لیے قابل تجدید توانائی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا شمسی منصوبہ کوئلے سے کاربن کے اخراج کو پورا کرے گا جس کی کان کنی کی جا رہی ہے ۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ اوریکل پاور 2016 سے چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت توانائی کے منصوبوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔پاکستان میں توانائی کے جاری بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے چند سال پہلے کرغزستان‘ تاجکستان اور افغانستان کے ساتھ 1300 میگاواٹ بجلی کی ترسیل کے طے پانے والے چار ملکی وسطی ایشیا،جنوبی ایشیا پاور پراجیکٹ جسے عام طور پر CASA-1000 کے نام سے جانا جاتا ہے کے منصوبے پر بھی نہ صرف توجہ دینے کی ضرورت ہے بلکہ اس منصوبے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے بھی ہرممکن اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔ 1.16 بلین ڈالر کے اس منصوبے کے تحت دوسط ایشیائی مسلمان ممالک کرغزستان اور تاجکستان افغانستان کے راستے پاکستان کواپنی فاضل پن بجلی برآمد کر یں گے۔یاد رہے کہ اس منصوبے کا سنگ بنیاد مئی 2016 میں چاروں ممالک کے رہنما¶ں نے مل کر رکھا تھاجب کہ فیزیبلٹی رپورٹ کے مطابق یہ منصوبہ 2023 میں مکمل ہو ناتھالیکن تاحال یہ مکمل نہیں ہوا ہے ۔ اس منصوبے کے مطابق تاجکستان اور کرغزستان ہائیڈرو الیکٹرک ڈیموں سے 1300 میگا واٹ اضافی بجلی پیدا کرکے گرمیوں کے مہینوں میں پاکستان کو برآمد کریں گے۔ہائی وولٹیج ڈائریکٹ کرنٹ (HVDC) کنورٹر سٹیشنز کو بھی اس منصوبے کے حصے کے طور پر شامل کیا جائے گا، ساتھ ہی 477 کلومیٹر طویل الٹرنیٹنگ کرنٹ ٹرانسمیشن لائن دتکا کرغزستان اور خوجند تاجکستان کے درمیان بچھائی جائے گی۔اس منصوبے کے تحت تاجکستان کے شہر سنگتودا میں 1300 میگاواٹ کا AC/DC کنورٹر سٹیشن تعمیر کیا جائے گا اور ساتھ ہی کابل، افغانستان میں 300 میگاواٹ کا کنورٹر سٹیشن بھی تعمیر کیا جائے گا۔ سنگتودا اور پشاور شہر کے درمیان سالانگ پاس اور کابل کے راستے ایک 750 کلومیٹر HVDC لائن تعمیر کی جائے گی۔ پشاور میں 1300 میگاواٹ کا کنورٹر اسٹیشن بنایا جائے گا اور اسے پاکستان کے نیشنل الیکٹرک گرڈ سے منسلک کیا جائے گا۔ٹرانسمیشن لائنوں کو 1300 میگاواٹ بجلی کی ترسیل کےلئے ڈیزائن کیا گیا ہے جس میں افغانستان کو 300 میگاواٹ اور پاکستان کو 1000 میگاواٹ بجلی فراہم کی جائے گی۔