پاکستان میں غربت کی شرح کیا ہے؟ اِس حوالے سے ایک ’کثیر الجہتی فہرست (انڈیکس) جاری کی گئی ہے جس میں غربت کے مختلف پہلوؤں اور نوعیت کو اُجاگر کیا گیا ہے‘سال دوہزارسترہ سے سال دوہزاربائیس تک ملک گیر غربت کا سروے کیا گیا جس سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کی روشنی میں غربت کی منظرکشی کی گئی ہے۔ ابتدائی تخمینوں کے مطابق پاکستان میں تقریباً ساڑھے اکیس فیصد آبادی شدید یعنی کثیر الجہتی غربت کا سامنا کر رہی ہے جبکہ اِس کے علاؤہ قریب تیرہ (12.9) فیصد آبادی ایسی ہے جو غربت کا شکار ہے۔ یہ اعداد و شمار اس حقیقت کو واضح کر رہے ہیں کہ غربت کے خاتمے میں پیش رفت کے باوجود پاکستان کے فیصلہ سازوں کو اب بھی عوام کی فلاح و بہبود جیسے اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔کثیر الجہتی غربت کے خلاف پاکستان کی جدوجہد کیلئے جامع ہدف پر مبنی نقطہ نظر کی ضرورت ہے جو محرومی کی مختلف جہتوں کا حل ثابت ہو۔ صرف مالی وسائل کی کمی ہونا غربت نہیں ہے بلکہ غربت پر توجہ مرکوز کرنے کے علاؤہ ’معیاری تعلیم‘ صحت کی دیکھ بھال‘ صاف پانی‘ صفائی اور سہولیات کے بنیادی ڈھانچے تک رسائی جیسی رکاوٹوں کو دور کرنا بھی یکساں اہم و ضروری ہوتا ہے۔ تعلیم (یعنی شرح خواندگی میں اضافے) کے ذریعے غربت کے خاتمے کی کوششیں سب سے ’اہم‘ ہیں۔ تعلیمی اداروں میں داخلوں کی بڑھتی ہوئی شرح میں پیش رفت کے باوجود‘ بہت سے لوگوں کے لئے معیاری تعلیم کا حصول ناممکن ہے۔ معیاری تعلیم تک رسائی یقینی بنانا اور تعلیمی اداروں
کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری غربت کا چکر توڑنے اور افراد کو آگے بڑھنے کیلئے ضروری مہارتوں اور علم کے ساتھ بااختیار بنانے کی سمت میں اہم اقدامات ہیں۔ مزید برآں صاف پانی‘ صفائی ستھرائی اور رہائش تک رسائی سمیت معیار زندگی بہتر بنانے کیلئے کوششیں کی جانی چاہئیں۔ یہ بنیادی سہولیات انسانی وقار اور فلاح و بہبود کا لازمی جزو ہیں۔ اضافی طور پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستانی حکومت نے احساس اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے مختلف سماجی بہبود کے پروگراموں کے ذریعے غربت کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے اقدامات کئے ہیں لیکن وہ بڑی حد تک غیر مؤثر ثابت ہوئے ہیں لہٰذا انسداد غربت کی کوششوں کو زیادہ سے زیادہ با اثر یعنی کامیابی یقینی بنانے کیلئے ان کا مسلسل جائزہ لینے اور اِن میں وقتا فوقتاً توسیع کی ضرورت ہے اگرچہ یہ کام مشکل ہے کیونکہ ملک کی قریب نصف آبادی کسی نہ کسی صورت غربت سے دوچار ہے اور اِس غربت کو ختم کرنے کیلئے سب سے آسان طریقہ ’زرعی ترقی‘ ہے جس کیلئے موجودہ وفاقی اور پاک فوج کی قیادت نے جس لائحہ عمل پر اتفاق کیا ہے وہ ’زرعی
شعبے کی ترقی‘ ہے اور پاکستان کی یہی زرعی صلاحیت اِس کی غربت کم کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے اور زراعت ہی کے دم کرم سے پاکستان معاشی پیش رفت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حکومت‘ سول سوسائٹی اور عالمی برادری کیلئے ضروری ہے کہ وہ مل کر ایک ایسی معاشی ترقی کیلئے کام کریں جسکے خوشحال پاکستان بننے کے امکانات زیادہ واضح ہیں۔زرعی ترقی کیلئے نئی حکمت عملی ”گرین پاکستان انیشی ایٹو (جی پی آئی)“ قومی فیصلہ سازوں کیلئے کس قدر اہمیت کا حامل ہے اور زراعت کی ترقی میں چھپی ہوئی ملکی ترقی کی صلاحیت کو دریافت کر لیا گیا ہے اِس بات کا ’جی پی آئی‘ کا آغاز کرنے کی تقریب کے مہمانان خصوصی سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اور پاک فوج کے سربراہ (چیف آف آرمی سٹاف) مذکورہ تقریب میں خصوصی طور پر شریک ہوئے۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان کا جغرافیائی رقبہ 79 ملین ہیکٹر ہے اور ایک ہیکٹر 2.47 ایکڑ رقبہ ہوتا ہے۔ اس کل رقبے (7 کروڑ 90 لاکھ ہیکٹر) رقبے میں سے ایک کروڑ ستاون لاکھ ہیکٹر پر کاشت کی جاتی ہے اور 82 لاکھ ہیکٹر ایسا رقبہ موجود ہے جو غیر کاشت شدہ ہے اور اِسے فوری طور پر زیرکاشت لایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا سب سے زیادہ بنجر علاہ بلوچستان (46.6 فیصد)‘ سندھ میں (19.5فیصد)‘ پنجاب (17.8فیصد) اور خیبر پختونخوا (16فیصد) ہیں۔ زیادہ سے زیادہ زمین کو زیر کاشت لانا ’درست فیصلہ اور انتخاب‘ ثابت ہو سکتا ہے بشرطیکہ ہم پاکستان میں موجود پانی کے وسائل کا بہتر و موثر استعمال یقینی بنا سکیں۔ زرعی ترقی بنا پانی نہیں ہو سکتی۔ اِس کیلئے زمین کی ترقی‘ آبپاشی کے نظام کی وسعت اور کاشتکاری کے درست (جدید) طریقوں میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور اِسی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ’ایگری کلچرل کارپوریٹائزیشن‘ کو آزمایا جائیگا اور اِس تجربے میں پانچ لاکھ ہیکٹر پر کاشتکاری کی جائیگی‘ جلال پور کینال‘ گریٹر تھل کینال‘ کچی کینال اور پانی ذخیرہ کرنے کیلئے نئے چھوٹے اور درمیانے ڈیموں جیسی نئی آبپاشی منصوبے بنانے پڑیں گے جہاں پانی کا ضیاع نہ ہو اور اِس مقصد کیلئے آبی وسائل کی کارپوریٹائزیشن یعنی نجی چھوٹے ڈیموں کی تعمیر‘ نہری نظام کی صلاحیت و ذخیرے میں اضافہ اور طلب کے مطابق پانی کی فراہمی (ڈیمانڈ انڈینٹ سپلائی میکانزم) پر نظرثانی کی جانی چاہئے۔ برطانوی راج کے دوران بینک قرضوں اور فلوٹنگ بانڈز کا استعمال کرتے ہوئے نہری آبپاشی نظام تعمیر کیا گیا تھا جسے بھاری سود ادا کر کے حاصل کر لیا گیا اور اب پاکستان کا پانی مقروض نہیں ہے۔ ایک وقت میں پانی کے قیمت (آبیانہ) جمع کرنے کیلئے کلکٹر مقرر کئے گئے لیکن وقت کیساتھ اِس کی ضرورت نہیں رہی اور اب جبکہ ایک مرتبہ پھر زرعی ترقی و توسیع کی ضرورت درپیش ہے تو اِس ماڈل کو دوبارہ استعمال کیوں نہیں کیا جا سکتا؟۔