مسافر تو کیا تھکے ہارے ہوں گے‘پتا نہیں کوسٹر کہاں سے سینکڑوں میل کی مسافت طے کر کے پشاور پہنچی تھی‘جی ٹی روڈ پر سے ہوتے ہوئے اپنے اڈے کی جانب اندرونِ شہر رواں تھی خود گاڑی بھی اپنی چال سے لگ رہی تھی کہ تھک چکی تھی۔کہیں رکنا پھر چلناپھر رکنا یہی تو ان مسافر گاڑیوں کا کام ہوتا ہے۔مسافروں کو سہولت دینا مگر ایسی بھی کیا سہولت کہ اندر بیٹھی ہوئی سواریوں کو اتنا بھی آرام کہ پیچھے سارا ویرانہ اور دشت و بیاباں چھوڑ کر شہر کے اندر صاف ستھری سڑکوں پر داخل ہونا۔پھر سڑکوں کے صاف ستھرے فٹ پاتھ جوشیشے کی طرح بارش کی ہلکی بوندوں میں چمک رہے تھے ان پر گند پھینکنا۔میں اسی روٹ پر شہر کی جانب روانہ تھا‘ آگے کے مناظر تو صاف دکھائی دے رہے تھے۔گاڑی آہستہ ہوئی اور اس کا شیشہ کھلا۔ اتنے میں اس کی کھڑکی میں سے گند کا ایک بڑا شاپر اٹھا کر سڑک کنارے کی لگی سواریوں کے بیٹھنے کی چھتری اور سبزہ اور اینٹوں سے سجے فٹ پاتھ پر دور کونے میں وہ شاپر پھینک دیا گیا‘ میرے ذہن میں سوال تازہ ہوا کہ اب پورے سفر کو جہاں سے گاڑی آرہی تھی چھوڑ کر اور وہاں کی ویران گزرگاہوں کو ترک کر کے شہر میں داخل ہونا اور وہ بھی صوبائی دارالحکومت میں اور وہاں کے صاف ستھرے فٹ پاتھ پر یہ گند پھینک دینا۔ا س کے آخر کیا معنی نکلتے ہیں۔اگر گاڑی اپنی رفتار سے جا رہی ہوتی تو ہم کہتے کہ یہ غلطی اندر بیٹھے ہوئے مسافر نے اکیلے ہی کی ہے۔مگر گاڑی کا آہستہ ہونا اور فٹ پاتھ کی طرف ہلکا سا جھکاؤ کرناپھر گند کے شاپر کا اندرسے برآمد ہونا۔یہ سب کچھ ظاہر کر رہاتھا کہ اس میں غلطی میں کوسٹر کے ڈرائیور کا ہاتھ بھی تھا۔اگر یہ سب کچھ اس کی مرضی کے مطابق ہوا اور اس نے مسافروں کو اتنی زیادہ سہولت دینے کی کوشش کی کہ ان کو خاص ملک کے بڑے شہر پشاو رمیں داخل ہو کر وہاں گند پھینکنے کا موقع دیاتو اس پربہت سوال اٹھتے ہیں۔ سوال یہ کہ کیا ان چند ایک ڈرائیوروں میں اتنا احساس ذمہ داری نہیں کہ اڈہ کے اندر جو چند قدموں کے فاصلے پر تھا وہاں مسافروں کو گندگی بھرے شاپرکوڑے کے ڈرم میں پھینکنے کا موقع دیتے‘جہاں حکومت کے کارندے ٹریفک پولیس کی صورت میں شہر بھر میں پھیلے ہوتے ہیں اور عوام الناس کو ٹریفک کے اخلاق سکھلاتے پھرتے ہیں ان کافرض ہے کہ وہ ان اڈوں پر بھی جاکر چکر لگائیں اور وہاں کی انتظامیہ کے سرکردہ رہنماؤں کو بھروسے میں لیں اور ان کو اڈے کے آداب سکھائیں۔ایک تو ان کو یہ بتلائیں کہ جہاں سے سواری اٹھائی واپسی پراس مقام پر اگر نہیں تو نہایت قریب مین گیٹ پرسواریاں اتار دیں۔مگر یہ سواریاں تو شوق سے اٹھا لیتے ہیں مگر ان کو اتارتے وقت وہاں نہیں اتارتے جہاں سے گاڑی میں سوار کیا تھا۔ان کا اپنامطلب پورا ہو جاتا ہے ان کے لئے یہی کافی ہے۔دوسرا بھاڑ میں جائے دور اتار دیتے ہیں وہاں سے کمزور لوگ لنگڑاتے ہوئے اسی مقام پر آتے ہیں جہاں سے چڑھے تھے کیونکہ وہاں کسی نے اپنی گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی ہوتی ہے۔پھر وہاں سے وہ اگر رکشہ کروائیں تو وہ ان کو گھر پہنچانے کا کرایہ کم ہوگا‘ دور اتریں گے تو رکشہ کا کرایہ بھی زیادہ دینا پ ڑے گا۔یہ روش ہمارے ہاں عام ہے کہ لاکھوں کی گاڑی ہوگی اور اس میں فیملی کے لوگ سوار ہوں گے اس گاڑی کی کھڑکی کا شیشہ کھلے گا اوراندر سے کھائے ہوئے فروٹ کے چھلکو ں کا شاپر اٹھا کر باہر صاف ستھری سڑک پرپھینک دیا جائے گا۔موٹر وے پربھی سفر کریں تو یہی حال ہے۔ہماری فطرت کے بدلنے میں بہت دیر لگے گی‘ہمارے سینئر لوگ ایسا کرتے تھے اور اب ان کے بچے بھی ایسا ہی کرتے ہیں‘ہمارے تو بائیک پراگر پچھلی سواری کے ہاتھ میں جوس پی کر خالی ڈبہ تھام رکھاہو تو ہم کہتے کہ جوس پی کر ڈبہ پھینکنا نہیں مجھے دینا۔میرا مقصد یہی ہوتا ہے کہ خالی ڈبہ وہا ں پھینکنا ہے جہاں کوڑے کا ڈرم وغیرہ پڑا ہو‘یہ چھوٹی چھوٹی باتیں اگر ہم عادت کے طور پراپنا لیں تو قسم سے پورے شہر کا شہر آئینہ بن جائے اور کہیں بھی کوئی گند نظر نہ آئے۔ اگر راستے میں کیلے کا چھلکا یا کو ئی اور معمولی گند بیچ سڑک کے پڑاہو تو ہم لوگ ڈھٹائی کے عالم میں اس کے اوپر سے گزر جاتے ہیں۔کسی میں اتنا احساس نہیں ہوتا کہ جھک کر وہ گند اٹھا لے اور سڑک کے کنارے کہیں پھینک دے۔ہر آدمی بس اپنی راہ لینا چاہتا ہے۔آگے کو نکلنا چاہتا ہے کہ میں جلدی پہنچ جاؤں دوسرے اپنا کام کریں گے۔اگر ہم اپنے حصے کی شمع جلائیں جو ظاہر ہے کہ ایک ہے توسب لوگوں کی اس کوشش سے کتنا اندھیرا چھٹ جائے گا۔کتنی جہالت کے اندھیارے دور ہوں جائیں گے۔مگر ہم میں یہ شعور ڈالا ہی نہیں گیا۔ ہمارے بڑے اپنی سی کشاکش میں الجھے رہے کسی کو عوام کا غم نہ تھا ان کو اپنے غم نے ستا رکھا تھا سو یہ اپنی بلائیں دور کرتے رہے بلکہ اپنی بلائیں دور کر کے عوام کے سر پرگراتے رہے اور عوام اپنے آپ کو کوستے رہے اور اندر اندر کھاتے رہے۔ہمارے ہاں تربیتی معاملات کھٹائی کاشکار ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ تربیتی معاملات کی ابتداء گھر سے ہوتی ہے اگر ہر گھر سے معاشرے میں مفید رویوں کے ساتھ افراد باہر آئیں گے تو پورا معاشرہ یقینا ایک دوسرے کی بھلائی کے رویوں سے بھرپور ہوگا اگر ہم میں سے ہر کوئی اپنی علاقے کو اسی طرح اہمیت دیں جس طرح اپنے گھر کو دیتا ہے تو یقینا جو صورتحال ہم اس وقت دیکھ رہے ہیں وہ یکسر تبدیل ہو جائے گی۔