بوسٹن: ایک نایاب جینیاتی کیفیت کی وجہ سے تین دہائیوں سے زیادہ عرصے تک ہیضے کے مرض سے لڑنے والا شخص بالآخر صحت یاب ہوگیا۔
33 سالہ امریکی(جن کی شناخت کو گمنام رکھا گیا) دو ماہ کی عمر سے پیچش کے مرض میں مبتلا تھے اور اس مسئلے کی وجہ سے کم از کم آٹھ بار اسپتال میں داخل ہوچکے تھے۔
کافی سالوں تک ڈاکٹر اس بیماری کی تشخیص کرنے میں ناکام رہے۔ بالآخر یہ جاننے میں کامیاب ہوئے کہ یہ مریض ایک نایاب جینیاتی تغیر میں مبتلا ہے جس کے سبب اس کا مدافعتی نظام قابو سے باہر ہوجاتا ہے اور اس کی آنتوں پر حملہ آور ہوجاتا ہے جو ہیضے کا سبب بنتا ہے۔
33 سالہ امریکی نے مرض سے صحت یابی کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ کرایا اور اب ان کو روزانہ ٹوائلٹ میں گھنٹوں کا وقت نہیں گزارنا پڑتا۔
نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی کیس رپورٹ میں ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ انہوں نے مریض میں مدافعتی نظام پر قابو نہ رکھنے کے مسئلے، پولی اینڈوکرِنوپیتھی، اینٹروپیتھی، ایکس لنکڈ سِنڈروم کی تشخیص کی۔
ٹیسٹ میں معلوم ہوا کہ ان کے FOXP3 جین میں تبدیلی ہوتی تھی، یہ جین ٹی سیلز نامی وائٹ بلڈ سیلز کی ایک قسم کی نگرانی کرتاہے۔
یہ تبدیلی سِنڈروم کا سبب بنی جس کی وجہ سے ضرورت سے زیادہ فعال مدافعتی نظام اپنے ہی جسم کے بافتوں اور اعضاء کو باہر سے آئے حملہ آور سمجھ کر ان پر حملہ کر دیتا ہے۔
فلیڈیلفیا کے چلڈرنز ہاسپٹل کے مطابق اس انتہائی نایاب کیفیت سے ہر 16 لاکھ افراد میں ایک فرد کو متاثر ہوتا ہے یا پورے امریکا میں اس کیفیت سے 200 سے بھی کم افراد متاثر ہیں۔
ہیضے سے نمٹنے کے لیے یہ مریض دو سال کی عمر سے تمام قسم کی دودھ سے بنی اشیاء، سویا، گلوٹین، انڈے، درختوں پر اگنے والے گری دار میوے، مونگ پھلی، مچھلی اور شیل فِش سے پرہیز پر تھے۔
ساتھ ہی اپنے مدافعتی نظام کو قابو کرنے کے لیے وہ متعدد ادویات کا استعمال بھی کرتے تھے۔